بہار انتخابات میں ’غیر معمولی جیت‘ نے مودی کو انڈیا کا ’سب سے طاقتور رہنما‘ بنا دیا

مودی

،تصویر کا ذریعہGetty Images

    • مصنف, شکیل اختر
    • عہدہ, بی بی سی اردو، دلی

بہار اسمبلی کے انتخابات کے بارے میں ماہرین کی عمومی رائے یہی تھی کہ یہ انتخابات بہت سخت ہوں گے اور کسی کی جیت کی پیش گوئی کرنا آسان نہیں ہو گا۔

اپوزیشن کانگریس اور بہار میں اس کے اتحادی تیجسوی یادو کی جماعت نے ریاست میں بہت اچھی انتخابی مہم چلائی تھی۔

راہل گاندھی نے ووٹر لسٹ میں مبینہ دھاندلی کے بارے میں ریاست گیر مہم کی قیادت کی تھی۔ لیکن جمعے کو جب 243 رکنی اسمبلی کے نتائج سامنے آئے تو بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) اور جنتا دل (يونائیٹڈ) کا اتحاد تین چوتھائی سیٹیں حاصل کرنے کے قریب پہنچ گیا۔

انتخابی نتائج کے مطابق بی جے پی 89 جبکہ جنتا دل (يونائیٹڈ) 85 نشستوں پر کامیاب ہوئے اور تیجسوی اور کانگریس کا اتحاد بدترین شکست سے دوچار ہوا ہے۔

کانگریس ان انتخابات میں صرف چھ نشستیں جیت سکی ہے، جبکہ ان کے اتحادی تیجسوی کی جماعت 25 سیٹوں پر کامیاب ہوئی ہے۔

وزیر اعظم نریندر مودی نے بہار کی جیت پر اپنی تقریر میں کہا کہ 'میں نے بہار کے لو گوں کا دل چرا لیا ہے۔ اس جیت نے بنگال میں بی جے پی کی جیت کے لیے راستے ہموار کر دیے ہیں۔'

ان انتخابات میں مجموعی طور پر 67 فیصد ووٹروں نے ووٹ ڈالے ہیں، جو کہ 1951 کے بعد سے اب تک کا سب سے بڑا نمبر ہے۔

راہل گاندھی

،تصویر کا ذریعہGetty Images

انڈین اپوزیشن پانرٹی کانگریس کے رہنما راہل گاندھی نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر پوسٹ کیے گئے ایک بیان میں کہا ہے کہ یہ نتائج ان کے لیے ’حیران کُن‘ ہیں۔

انھوں نے کہا کہ ’بہار الیکشن کے نتائج حقیقتاً حیران کن ہیں۔ ہم ایک ایسے الیکشن میں جیت حاصل نہیں کر سکے جو ابتدا سے ہی صاف و شفاف نہیں تھا۔ ہم ملک کے آئین اور جمہوریت کو بچانے کی لڑائی لڑ رہے ہیں۔‘

’کانگریس پارٹی اور اپوزیشن انڈیا اتحاد بہار کے نتیجے کا گہرائی سے جائزہ لے گا اور جمہوریت کو بچانے کے لیے اور مؤثر کوششیں کرے گا۔‘

’بی جے پی اتحاد کی جیت پر حیرت نہیں‘

جہاں ایک طرف راہل گاندھی نے انتخابی نتائج کو ’حیران کُن‘ قرار دیا ہے وہیں ان کی اتحادی جماعتوں کے کارکنان اس نتیجے کو زیادہ حیرت انگیز نہیں سمجھتے۔

سیاسی کارکن اور اپوزیشن اتحاد کے حامی یوگیندر یادو نے بہار کے نتائج پر بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’بی جے پی کے اتحاد این ڈی اے کی جیت پر کوئی حیرت نہیں ہوئی ہے کیونکہ یہ شروع سے ہی واضح تھا کہ این ڈے کو اپوزیشن کے اتحاد مہا گٹھ بندھن پر انتخابی برتری حاصل ہے۔‘

’بی جے کے پاس ایک بڑا تنظیمی ڈھانچہ ہے۔ دوسرا بی جے پی نے جے ڈی یو کے نتیش کمار سے جو اتحاد کیا اس سے اس کے سماجی دائرے میں اونچی سمجھی جانے والی ذاتوں کے ووٹرز کے ساتھ ساتھ انتہائی پسماندہ سمجھی جانے والی ذاتوں کے لوگ بھی ساتھ آگئے۔‘

مواد پر جائیں
بی بی سی اردو اب واٹس ایپ پر

بی بی سی اردو کی خبروں اور فیچرز کو اپنے فون پر حاصل کریں اور سب سے پہلے جانیں پاکستان اور دنیا بھر سے ان کہانیوں کے بارے میں جو آپ کے لیے معنی رکھتی ہیں

سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں

مواد پر جائیں

یوگیندر کہتے ہیں کہ ’جیت کا تیسرا اہم پہلو یہ ہے کہ گذشتہ سالوں میں نتیش کمار نے خواتین کی حمایت حاصل کرنے کے لیے کئی کامیاب سکیمیں شروع کی ہیں۔‘

انھوں نے دعویٰ کیا کہ ’الیکشن شروع ہونے سے پہلے وزیر اعلیٰ نتیش کمار نے خواتین کو دس، دس ہزار روپے نقد فراہم کرنے کی سکیم شروع کی، اس سے الیکشن کے نتائج پر ضرور اثر پڑا ہے۔‘

کانگریس کے کچھ رہنماؤں کا خیال ہے کہ ان کی جماعت کو اپنی مجموعی کارکردگی پر غور کرنا ہوگا۔

کانگریس کے رہنما ششی تھرور بھی کہتے ہیں کہ الیکشن کے ضابطہ اخلاق کے نفاذ سے صرف ایک دن پہلے ریاست میں بی جے پی کی مخلوط حکومت نے خواتین کے لیے ایک بڑی مالی سکیم کا اعلان کیا تھا۔

’یہ پہلا موقع نہیں ہے جب کسی ریاستی حکومت نے انتخابی ضابطہ اخلاق کے نفاذ سے پہلے ووٹ حاصل کرنے کی غرض سے کسی طبقے کے لیے مخصوص مالی مراعات کے کسی پروگرام کا اعلان کیا ہو۔ یہ کوئی اچھا عمل نہیں ہے لیکن یہ سیاسی جماعتیں کر رہی ہیں۔‘

تاہم ششی تھرور سمجھتے ہیں کہ ’یہ بہت ضروری ہے کہ ہماری پارٹی اپنی مجموعی کارکردگی کا گہرائی سے جائزہ لے۔ الیکشن میں بہت سے پہلو ہوتے ہیں: عوام کا عمومی رحجان کیا ہے، پارٹی کا تنظیمی ڈھانچہ کتنا مضبوط یا کمزر ہے، کوئی پارٹی اپنے پیغام کو کتنے موثر طریقے سے عوام تک پہنچا رہی ہے۔‘

’یہ جاننے کے لیے کہ کیا غلط ہوا اور کیا صحیح ، ان سب ہی اسباب کا جائزہ لینا ہوتا ہے۔‘

’بہار کے لوگوں کے دل میں مودی بستے ہیں‘

جہاں کانگریس اور اس کے اتحادی بہار کے انتخابات میں اپنی کارکردگی پر مایوس ہیں، وہیں بی جے پی کے حامی اپنی جیت پر خوشی منا رہے ہیں۔

بی جے پی کے رہنما اور مرکزی وزیر نتیا نند رائے نے اپنی اور اتحادی جماعتوں کی کارکردگی پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ’بہار کے لوگوں نے بتا دیا ہے کہ انھیں ریاست میں ترقی چاہیے، اپنے اور اپنے بچوں کے لیے بہتر مستقبل چاہیے، انھیں جنگل راج نہیں چاہئیے۔ یہاں فرقہ پرستی اور ذات پرستی کی سیاست نہیں چلے گی۔‘

’بہار کے لوگوں کے دل میں مودی بستے ہیں آج یہ ثابت ہو گیا ہے۔‘

انتخابات سے قبل راہل گاندھی نے بی جے پی اور اس کے اتحادیوں پر دھاندلی کے الزمات بھی عائد کیے، جن کی متعدد مرتہ تردیدیں بھی سامنے آئی تھیں۔

بہار

،تصویر کا ذریعہGetty Images

بی جے پی کے اتحادی چراغ پاسوان نے کہا کہ ’اپوزیشن نے جو ووٹ چوری کے الزامات عائد کیے تھے این ڈی اے (بی جے پی اور اس کے اتحادی) کی اس جیت نے ان تمام سوالات کا بھی جواب دیا ہے۔‘

’عوام نے نے ان الزامات کو مسترد کر دیا ہے۔‘

’وزیرِ اعلیٰ نتیش کمار الیکشن کے اصل مین آف دا میچ‘

بی جے پی ان انتخابات میں سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھری ہے لیکن کچھ تجزیہ کار جنتا دل (یونائیٹڈ) کے وزیرِ اعلیٰ نتیش کمار کو اس جیت کی سب سے بڑی وجہ سمجھتے ہیں،

سیاسی تجزیہ کار آرتی جے رتھ نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ انتخابات ایک ایسے وقت میں ہوئے ہیں جب امریکی ٹیرف اور انڈیا اور پاکستان کے درمیان جنگ بندی کس نے کرائی جیسے موضوعات پر امریکہ سے ایک طرح ٹکراؤ چل رہا تھا۔‘

’خارجہ پالیس کو لے کر ملک میں جس طرح کے حالات تھے اس میں مودی کی ساکھ کو صدر ٹرمپ کے تعزیری ٹیرف اور جنگ بندی کے اصرار سےنقصان پہنچا تھا۔‘

آرتی سمجھتی ہیں کہ بہار کے انتخابات مین جیت ملک کے اندر مودی کی مقبولیت کو مستحکم کرے گی۔

’مودی کی حیثیت انڈیا کے سب سے طاقتور سیاسی رہنما کے طور پر پوری طرح قائم ہو چکی ہے۔ لیکن یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ ان کے اتحادی جے ڈی یو کے رہنما اور وزیر اعلی نتیش کمار اس الیکشن کے اصل مین آف دی میچ ہیں۔‘

’بی جے پی نے یہ جیت نتیش کمار کی ساکھ کےسہارے حاصل کی ہے۔ نتیش کمار کو ایک بہترین اور ایماندار منتظم تصور کیا جاتا ہے اور انھیں ریاست میں ترقی کا رہنما کہا جاتا ہے۔‘

نتیش کمار

،تصویر کا ذریعہGetty Images

اس الیکشن سے قبل تین چیزوں پر سب سے زیادہ بات ہو رہی تھی: سپیشل انٹینسیو رویژن (ووٹر لسٹوں کی ازسرنو تشکیل)، ووٹ چوری کا الزام اور پرشانت کشور، جن کی جن سوراج پارٹی نے انتخابات میں پہلی مرتبہ حصہ لیا ہے۔

تاہم آرتی سمجھتی ہیں کہ بہار کے انتخابات میں یہ تینوں موضوعات ہی بری طرح سے ’فیل‘ ہو گئے۔

آرتی کہتی ہیں ’لوگوں کے ذہن میں ووٹر لسٹوں کے حوالے سے کوئی بات نہیں تھی، ووٹر ٹرن آؤٹ ہوا سب کے سامنے ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ ووٹ چوری کے حوالے سے راہل گاندھی کی مہم کا کوئی اثر نہیں ہوا اور پرشانت کشور کو تو ایک سیٹ بھی نہیں مل سکی۔‘

’کانگریس کو اس الیکشن میں بہت نقصان ہوا ہے۔ انھیں سمجھنا پڑے گا کہ اگر ان کا اتر پردیش اور بہار جیسی ریاستوں میں تنظیمی ڈھانچہ نہیں ہے تو علاقائی جماعتوں کو انتخابات میں قیادت کرنے کا موقع دیا جانا چاہیے۔‘

آرتی سمجھتی ہیں کہ بہار میں ’غیر معمولی‘ جیت سے مودی کی سیاسی مقبولیت ایک مرتبہ پھر مستحکم ہو چکی ہے اور ’ان کی نظر آب آئندہ برس کے اوئل میں ہونے والے بنگال انتخابات پر ہو گی، جہاں بی جے پی تمام تر کوششوں کے بوجود بھی ابھی تک یہاں جیت نہیں سکی ہے۔‘