’ہمارا گھر لرز گیا، ایسا لگا جنگ ہو رہی ہے‘: دہلی دھماکے کے الزام میں کشمیری ڈاکٹر کا گھر منہدم

تصویر

،تصویر کا ذریعہMir Zeeshan

    • مصنف, ریاض مسرور
    • عہدہ, بی بی سی اُردو، سرینگر

انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر کے ضلع پلوامہ میں کوئل گاوٴں کے لوگ جمعے کی شب ایک زوردار دھماکے سے خوفزدہ ہوگئے۔ چند گھنٹوں میں ہی یہ معلوم ہو گیا کہ یہ دھماکہ ڈاکٹر عمر نبی کے گھر میں ہوا ہے۔

انڈین میڈیا کے مطابق ’حکام نے پلوامہ کے کوئل گاوٴں میں لال قلعہ خود کش حملے سے تعلق کے الزام میں عمر نبی کا گھر تباہ کردیا۔‘

پولیس یا کسی اور سکیورٹی ادارے نے اس حوالے سے کوئی بیان جاری نہیں کیا، تاہم ایک پولیس افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ پولیس کو خفیہ اطلاع ملی تھی کہ ڈاکٹر عمر کے گھر میں بارودی مواد موجود ہے۔

اُن کا کہنا تھا کہ ’دھماکے کے بعد اُنھوں نے فارنزک ٹیم کے ہمراہ گھر کا دورہ کیا، ہم سب امکانات کا جائزہ لے رہے ہیں۔‘

واضح رہے کہ 10 نومبر کی شام نئی دہلی کے لال قلعہ کے علاقے میں ایک کار بم حملہ ہوا جس میں 10 سے زائد افراد ہلاک اور درجنوں زخمی ہو گئے تھے۔

تصویر

،تصویر کا ذریعہGetty Images

ڈاکٹر عمر نبی پر الزام کیوں لگا؟

حملے کی تحقیقات انڈیا کا وفاقی ادارہ نیشنل انویسٹیگیشن ایجنسی (این آئی اے) کررہا ہے۔ تحقیقات کے دوران ہریانہ کے شہر فرید آباد میں ایک میڈیکل یونیورسٹی کے لیکچرر ڈاکٹر عمر نبی کا نام سامنے آیا۔

این آئی اے نے ابھی تک کوئی پریس کانفرنس یا بیان جاری نہیں کیا ہے، تاہم انڈیا میڈیا نے ذرائع کا حوالہ دے کر دعویٰ کیا کہ اس حملے میں ڈاکٹر عمر نبی بھی کسی نہ کسی طرح ملوث ہیں۔

پولیس نے ڈاکٹر عمر نبی کے والدین سے ڈی این اے نمونے بھی حاصل کیے تھے۔

واضح رہے کہ انڈین حکام نے اس حملے کو باضابطہ طور پر دہشت گردی کی کارروائی قرار دیا ہے، تاہم اسے خود کش حملہ قرار دینے سے متعلق سرکاری طور پر کوئی تصدیق نہیں کی گئی۔

پلوامہ پولیس کے ایک افسر نے بتایا: ’مکان سے تمام اہلخانہ کو پہلے ہی نکال لیا گیا تھا، کیونکہ یہ حساس آپریشن تھا۔‘

تاہم ذرائع نے بتایا کہ ڈاکٹر عمر کے سبھی اہلخانہ کو پولیس نے حراست میں لے رکھا ہے۔

پہلگام حملے کے ملزمان کے گھروں کی مسماری

مواد پر جائیں
بی بی سی اردو اب واٹس ایپ پر

بی بی سی اردو کی خبروں اور فیچرز کو اپنے فون پر حاصل کریں اور سب سے پہلے جانیں پاکستان اور دنیا بھر سے ان کہانیوں کے بارے میں جو آپ کے لیے معنی رکھتی ہیں

سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں

مواد پر جائیں

اس سال اپریل میں پہلگام میں مسلح حملے کے دوران 22 سیاحوں کی ہلاکت کے بعد پلوامہ کے شہریوں عادل ٹھوکر اور ترال کے شیخ آصف کے گھروں سمیت کم از کم نو گھر اسی طرح کے دھماکوں میں تباہ ہو گئے تھے۔

عادل اور آصف کے بارے میں بھی دعویٰ کیا گیا تھا کہ وہ پہلگام حملے کے سہولت کار تھے۔ تاہم یہ سلسلہ ’آپریشن سندور‘ کے بعد روک دیا گیا تھا۔

ڈاکٹر نبی کے والدین اور دوسرے رشتہ داروں کے فون بند ہیں اور ان کے حوالے سے پولیس بھی کوئی اطلاع نہیں دے رہی ہے۔

تاہم ڈاکٹر عمر کے ایک پڑوسی نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا: ’جمعے کی صبح ڈھائی بجے کے آس پاس ہمارا گھر لرز گیا اور ہمیں لگا شاید جنگ ہوئی ہے۔ باہر نکلے تو پتہ چلا کہ عمر کا گھر زمین بوس ہو چکا ہے۔ تین پے در پے دھماکے ہوئے۔ دھماکہ اس قدر شدید تھا کہ ہمارے گھر اور عمر کے چچا کے گھر سمیت مزید تین گھروں کی دیواروں میں دراڑ پڑ گئی ہے اور کئی شیشے بھی ٹوٹ گئے۔‘

تحقیقات میں ڈاکٹر عمر کے پڑوسی ڈاکٹر عدیل راتھر اور کولگام کے ڈاکٹر مزمل گنائی کا نام بھی سامنے آیا ہے، لوگوں میں ان کے گھروں کے بار�� میں بھی خدشات پائے جا رہے ہیں۔

تصویر

،تصویر کا ذریعہGetty Images

تحقیقات کہاں تک پہنچیں؟

کشمیر پولیس نے مبینہ طور پر ’دہشت گردوں کے بین الریاستی گروہ‘ کو بے نقاب کرنے کے لیے ایک وسیع کریک ڈاوٴن اکتوبر میں ہی شروع کیا تھا جب سرینگر کے مضافاتی علاقہ نوگام میں مسلح گروپ جیشِ محمد سے منسوب چند پوسٹر ملے تھے۔

اس کے بعد عرفان وگے نامی ایک امام مسجد کو گرفتار کیا گیا جس سے ڈاکڑ مزمل کا پتہ چلا۔ اس کے بعد پولیس نے ہریانہ اور اتر پردیش پولیس کے تعاون سے فرید آباد اور سہارن پور سے دو ڈاکٹروں کو گرفتار کیا۔

فرید آباد سے ایک انڈین خاتون ڈاکڑ شاہین انصاری کو بھی گرفتار کیا گیا جن پر الزام ہے کہ اُنھوں نے لال قلعہ حملے کے لیے فنڈنگ کی تھی۔ تاہم ڈاکڑ عمر مسلسل لاپتہ رہے، یہاں تک کہ کار بم دھماکے کے بعد اس کی تصویریں انڈیا میڈیا پر وائرل ہو گئیں اور الزام لگایا کہ ’اُنھوں نے ہی ایک کار کو لال قلعہ کے سگنل کے قریب اُڑا دیا تھا۔‘

پولیس کا کہنا ہے کہ ’انٹر سٹیٹ وائٹ کالر ٹیرر موڈیول‘ کے سلسلے میں کریک ڈاوٴن جاری ہے اور ابھی تک 500 گھروں پر چھاپے مارے گئے۔ ان میں بیشتر جماعتِ اسلامی کے ارکان اور پاکستان میں مقیم کشمیری عسکریت پسندوں کے گھر شامل ہیں۔

پولیس ذرائع کے مطابق ڈیڑھ ہزار افراد کو پوچھ گچھ کے لیے حراست میں لیا گیا تاہم بیشتر کو ابتدائی تفتیش کے بعد رہا کر دیا گیا۔