’یہ سچ جاننا خوفناک تھا کہ میرے والد نے 130 لڑکوں پر جنسی اور جسمانی تشدد کیا‘

،تصویر کا ذریعہPassion Pictures
اس تحریر میں شامل تفصیلات چند قارئین کے لیے باعث تکلیف ثابت ہو سکتی ہیں۔
چرچ آف انگلینڈ سے وابستہ ایک عادی مجرم کی بیٹی کا کہنا ہے کہ 130 لڑکوں پر ان کے والد کے حملوں کے بارے میں جاننا چونکا دینے والا اور خوفناک تھا۔
فیونا رگ کی عمر 47 برس ہے اور کرسچن چیریٹی چیئرمین جان سمتھ کیو سی کی سب سے چھوٹی بیٹی ہیں۔ جان سمتھ کی وفات انھیں انصاف کے کٹہرے میں لانے سے پہلے ہی ہو گئی تھی۔
سمتھ نے 1970 کی دہائی کے اواخر اور 1980 کی دہائی کے ابتدائی اوائل میں روحانیت کی آڑ میں 130 لڑکوں اور نوجوانوں کا شدید جمسانی اور جنسی استحصال کیا تھا۔
فیونا رگ جو اب انگلینڈ کے شہر برسٹل میں رہتی ہیں، نے آہستہ آہستہ اس پریشان کن سچائی کو تسلیم تو کر لیا لیکن پھر بھی وہ اکثر اپنے والد کی ’وابستگی‘ کی وجہ سے شرم کے جذبات سے دوچار ہوئیں۔
وہ کہتی ہیں کہ ’مجھے اس بات کا اندازہ ہے کہ اس میں میرا کوئی قصور نہیں لیکن مجھے یہ جان کر شرمندگی محسوس ہوتی ہے کہ میرے والد کسی کے ساتھ ایسا کر سکتے ہیں اور انھیں اس پر کوئی پھچتاوا نہیں تھا۔‘
2024 میں شائع ہونے والے مکین ریویو (جان سمتھ ریویو) نے پایا کہ چرچ کے اقدامات سمتھ کے خلاف الزامات کو چھپانے کے مترادف تھے، جس میں ایک پادری نے اعتراف کیا کہ ’میں نے سوچا کہ اگر یہ چیزیں عوامی سطح پر سامنے لائی گئیں تو اس سے خدا کے کام کو بہت زیادہ نقصان پہنچے گا۔‘
پہلی بار بی بی سی سے اس بارے میں کھل کر بات کرتے ہوئے فیونا رگ نے کہا کہ اپنے والد کے چونکا دینے والے استحصال کے بارے میں سچ جاننے کے بعد ان کے زخم بھر گئے ہیں۔
End of سب سے زیادہ پڑھی جانے والی
وہ کہتی ہیں کہ ’میں نے انھیں معاف کر دیا لیکن اس سے درد دور نہیں ہو جاتا یا سب ٹھیک نہیں ہو جاتا۔ میں خود کو اس میں جکڑا ہوا محسوس نہیں کرتی لیکن انھوں نے جو کیا، اس کا خوف بھی ختم نہیں ہوتا۔‘
’ان کے کیمپ کی طرف سے معذرت کے بارے میں کچھ نہیں آیا۔ ان لڑکوں کے ساتھ جو سلوک کیا گیا، میں اپنے والد کی طرف سے اس کے لیے معذرت خواہ ہوں۔‘

وہ یاد کرتی ہیں کہ ’میں اپنے والد کے اردگرد خوفزدہ محسوس کرتی تھی، جو بہت زیادہ غصے میں رہتے تھے۔‘
’وہ بہت غصے میں ہوتے تھے اور ان کا موڈ بدلتا رہتا تھا۔ میں ہر وقت اسی پریشانی میں رہتی تھی کہ ان کا موڈ کیسا ہے۔ مجھے اپنے والد پسند نہیں تھے اور بعض اوقات میں ان سے نفرت کرتی تھی۔‘
’میں نے جو دیکھا وہ پریشان کر دینے والا تھا۔ وہ بہت خوفزدہ کرنے والے، غصے والے اور نامہربان تھے۔ ان کا سامنا کرنا مشکل ہوتا تھا۔ میں ان سے بہت زیادہ دور رہنا چاہتی تھی لیکن لوگ انھیں بہت پسند کرتے تھے۔‘
جب سمتھ باہر لڑکوں اور نوجوانوں کے ساتھ کھیل اور ہنس رہے ہوتے تھے تو فیونا کھڑکی سے انھیں دیکھا کرتی تھیں۔
وہ وضاحت کرتی ہیں کہ ’ان کی دنیا میں جو شہرت تھی، ہم اس سے بہت مختلف جان سمتھ کا تجربہ کر رہے تھے۔‘
’جب آپ چھوٹے ہوتے ہیں تو آپ یہ ہی تنیجہ اخذ کرتے ہیں کہ ’وہ ٹھیک ہیں اور شاید میرے ساتھ کوئی مسئلہ ہے۔‘ شاید میں ہی چیزوں کو ٹھیک طرح سے نہیں دیکھ رہی۔‘
بی بی سی اردو کی خبروں اور فیچرز کو اپنے فون پر حاصل کریں اور سب سے پہلے جانیں پاکستان اور دنیا بھر سے ان کہانیوں کے بارے میں جو آپ کے لیے معنی رکھتی ہیں
سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں
مواد پر جائیں
سمتھ نے سنہ 1973 میں کرسچن یونین کے ذریعے ونچسٹر کالج تک رسائی حاصل کی اور اس کے بعد لوگوں کو اپنے گھر سنڈے لنچ کے لیے مدعو کر کے ان کا استحصال شروع کر ��یا۔
سمتھ اپنے گھر میں متاثرہ افراد کو ننگا ہونے پر مجبور کرتے اور لاٹھیوں سے ان پر تشد کرتے۔ وہ متاثرین کو اتنا مارتے کہ ان کا خون بہنے لگتا۔ سمتھ اس تشدد کو خود لذتی جیسے ’گناہوں‘ کی سزا یا توبہ کے طور پر بیان کرتے تھے۔
ایورن ٹرسٹ کے ایک اندرونی جائزے کے بعد یہ سکینڈل سنہ 1982 میں سامنے آیا جس میں ان حملوں کو ’پرتشدد اور خوفناک‘ قرار دیا گیا۔ یہ تفصیلات بھی سامنے آئیں کہ کیسے آٹھ لڑکوں کو 14 ہزار بار کوڑے مارے گئے۔
لیکن حکام کو اس بارے میں اطلاع دینے کی بجائے چرچ آف انگلینڈ سے وابستہ سینیئر حکام نے خاموشی سے سمتھ کو برطانیہ سے روانہ کر دیا اور وہ دہایئوں تک انصاف کے کٹہرے سے دور رہے۔
فیونا رگ بتاتی ہیں کہ جب ان کے خاندان کو سنہ 1984 میں زمبابوے لے جایا گیا تو ان کے والد نے اسے ’نیک کام‘ کے طور پر پیش کیا تھا، جنھوں نے مشنری بننے کے لیے اپنے ’روشن کیریئر‘ کی قربانی دی۔
لیکن استحصال کا یہ سلسلہ رکا نہیں اور انھوں نے جلد ہی کرسچن کیمپس کھولے جہاں وہ برہنہ پن کی ترغیب دیتے اور لڑکوں کی پٹائی کرتے۔
اس کے ایک برس بعد 16 برس کا گائیڈ نیاچرو نامی ایک لڑکا سمتھ کے ایک کیمپ میں آمد کے 12 گھنٹے بعد ہی مردہ پایا گیا۔ قتل کا الزام عائد کیا گیا لیکن کیس ختم ہو گیا۔
فیونا رگ جب 18 برس کی عمر میں واپس انگینڈ آئیں تو انھوں نے اپنے والد کے بارے میں بہت زیادہ سوال کرنے شروع کر دیے۔
’لوگوں نے یہ نہیں کہا کہ اوہو کیا شاندار انسان ہیں بلکہ یہ اس کے متضاد تھا۔ ایک خاموشی تھی۔ برطانیہ کے ساتھ کوئی نہ کوئی تعلق تھا جو مجھے عجیب لگا۔‘
انھوں نے کرسمس کے موقع پر ان افواہوں کے ساتھ اپنے والد کا سامنا کیا۔ وہ غصے میں پھٹ پڑے اور فیونا پر الزام لگایا کہ وہ ان سے سوال کرنے کی جرات کر کے اپنے خاندان کے ساتھ ’بے وفائی‘ کر رہی ہیں۔
فیونا کہتی ہیں کہ ’ان کا ردعمل شدید تھا۔ مجھے یاد ہے کہ میں سوچ رہی تھی کہ اب مجھے واقعی پتا ہے کیونکہ آگ کے بغیر اتنا دھواں ممکن نہیں۔‘

،تصویر کا ذریعہPassion Pictures
سمتھ کی بدسلوکی کے بارے میں رپورٹس پہلی بار فروری 2017 میں ’چینل فور‘ کی ایک تحقیق میں سامنے آئیں۔
فیونا نے جب ایک شام خبروں کے لیے ٹی وی آن کیا تو ان کے والد انھیں گھور رے تھے۔ سکرین پر ان کے والد کا نام بہت سے خوفناک جرائم کے ساتھ چلایا جا رہا تھا۔
وہ کہتی ہیں کہ ’لوگوں کے نوجوان بچے تھے، جن کی زندگیاں برباد ہو چکی تھیں۔ میرا اپنا بھی ایک بیٹا ہے۔‘
’میں نے جتنا ظالم انھیں دیکھا تھا، مجھے اندازہ نہیں تھا کہ انھوں نے اس قدر زیادہ مجرمانہ استحصال کا ارتکاب کیا۔ یہ خوفناک اور چونکا دینے والا تھا۔‘
’ان کی پوری زندگی ’خدا کے لیے کام‘ کرنے سے متعلق تھی۔ ہر چیز کے لیے وہ اپنے عیسائی عقیدے کا سہارا لیتے تھے اور مجھے ان کی منافقت انتہائی گھناؤنی لگی۔‘
اگست 2018 میں سمتھ کو ہیمپشائر پولیس کی جانب سے پوچھ گچھ کے لیے انگلینڈ واپس جانے کا سمن موصول ہوا۔
وہ صرف آٹھ دن بعد دل بند ہو جانے سے 77 برس کی عمر میں انتقال کر گئے۔ انھیں کبھی بھی انصاف کے کٹہرے میں نہ لایا جا سکا۔
فیونا کہتی ہیں کہ وہ اب اپنے والد کے بارے میں ’تلخی یا نفرت کے بغیر‘ بات کرتی ہیں اور سکون محسوس کرتی ہیں۔
’میرے تجربے میں اگر میں یہ تسلیم کر لوں کہ میرے والد نے یہ سب کیا تو اس سے زخم بھرنے اور ان کو معاف کرنے میں مدد ملتی ہے۔‘
’کچھ لمحے آپ کو پریشان کرنے والے ہوتے ہیں لیکن میں اب اپنے والد کا سوچ کر تکلیف محسوس نہیں کرتی اور یہ اچھی پیشرفت ہے۔ یہ نہ میرا جرم ہے اور نہ ہی اس کا بوجھ اٹھانا میری ذمہ داری ہے۔‘
وہ کہتی ہیں کہ میرے والد نے جو کیا، وہ میں نے خود پر مسلط کر لیا تھا تاہم اب میں نے اس پر توجہ نہ دینے کا فیصلہ کیا ہے۔













