قیمتی موبائل جو ’فیس بُک فرینڈ شازیہ‘ کے بجائے اُس کا ’بھائی‘ لے اڑا: کوریئر کمپنی متاثرہ شخص کو ہرجانہ ادا کرے، لاہور ہائیکورٹ

تصویر

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشنیہ کیس سنہ 2022 کا ہے جب ایک صارف اپنی شکایت لے کر لاہور کی کنزیومر کورٹ پہنچا
    • مصنف, محمد زبیر خان
    • عہدہ, صحافی

پاکستان کے سوشل میڈیا پر لاہور کی کنزیومر کورٹ کے اُس فیصلے پر بحث جاری ہے جس میں عدالت نے ایک کورئیر کمپنی کو حکم دیا تھا کہ وہ ایک متاثرہ صارف کو ایک لاکھ 24 ہزار روپے بطور ہرجانہ ادا کرے۔

دراصل کورئیر کمپنی نے صارف کی جانب سے بُک کروایا گیا قیمتی موبائل فون، واضح ہدایات کے باوجود ایک خاتون کی جگہ مرد کو ڈیلیور کر دیا تھا، جس کے بعد متاثرہ صارف نے یہ معاملہ عدالت میں لے جانے کا فیصلہ کیا۔

کنزیومر کورٹ کے فیصلے کے خلاف کورئیر کمپنی نے لاہور ہائی کورٹ میں اپیل بھی دائر کی تاہم عدالت عالیہ نے کنزیومر کورٹ کا فیصلہ برقرار رکھا ہے۔

اس معاملے کی ابتدا کیسے ہوئی؟ یہ جاننے کے لیے ہمیں تقریباً تین برس پیچھے یعنی سنہ 2022 میں جانا پڑے گا۔

صارف صدیق گھمن نے سنہ 2022 میں ایک موبائل فون کوریئر کمپنی (ٹی سی ایس) کے ذریعے بُک کروایا۔

یہ بکنگ ’سیلف کلیکشن‘ کی بنیاد پر کی گئی تھی اور موبائل فون کی وصولی صدیق گھمن کی ’فیس بُک فرینڈ‘ شازیہ سعید (جسے مطلوبہ وصول کنندہ کہا گیا) نامی خاتون کے نام پر ہونی تھی۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ اس موبائل فون کو اسی نام کی خاتون کو کوریئر کمپنی سے وصول کرنا تھا۔

اس کے علاوہ صدیق گھمن نے بھیجے گئے موبائل فون کی انشورنس بھی کروائی تھی۔

چند روز بعد شازیہ نے صدیق گھمن کو بتایا کہ انھوں نے موبائل فون کوریئر کمپنی سے وصول کر لیا ہے اور اس کے بعد انھوں نے صارف صدیق گھمن سے ہر طرح کا رابطہ منقطع کر دیا۔

جب رابطہ منقطع ہوا تو صدیق نے اس بات کی ٹی سی ایس سے تصدیق چاہی کہ انھوں نے موبائل فون کس کے حوالے کیا تھا۔

صدیق گھمن نے صحافی محمد زبیر کو بتایا کہ ’ٹی سی ایس والوں نے مجھے بتایا کہ موبائل شازیہ کے بھائی عامر کو دیا گیا تھا۔‘

’ٹی سی ایس نے مجھے یہ بھی بتایا کہ جب انھوں نے مطلوبہ نمبر پر رابطہ کیا تو ان کے پاس عامر نامی شخص آیا اور اس نے کہا کہ شازیہ ان کی بہن ہیں اور وہ یہاں نہیں آ سکتی ہیں۔ آپ موبائل دے دیں میں اس کو پہنچا دوں گا۔ تو ٹی سی ایس نے موبائل فون عامر کے حوالے کر دیا۔‘

پارسل

،تصویر کا ذریعہGetty Images

صدیق گھمن مزید کہتے ہیں کہ ’میں نے تو سروس ہی اس بنیاد پر لی تھی کہ موبائل مطلوبہ شخص کی شناخت کر کے اس کے حوالے کیا جائے، نہ کہ کسی اور کو دیا جائے۔ اس پر میں نے ٹی سی ایس کو قانونی نوٹس بھجوایا کہ میرا موبائل مطلوبہ شخص کو نہیں دیا گیا اور غلط بندے کو دے دیا گیا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’اس پر مجھے کہا گیا کہ موبائل واپس لے لیں (جو ٹی سی ایس والوں نے میری شکایت کے بعد عامر نامی شخص سے واپس لے لیا تھا) مگر میں نے ہرجانے کا مطالبہ کیا جو پورا نہ ہوا تو پہلے میں نے کنزیومر کورٹ اور پھر ہائی کورٹ لاہور میں مقدمہ کیا جہاں سے فیصلہ میرے حق میں آیا۔‘

صدیق گھمن کہتے ہیں کہ ’دراصل میں مثال قائم کرنا چاہتا تھا جس کے لیے میں نے برسوں محنت کی۔‘

واضح رہے کہ صدیق گھمن نے عدالت میں دلائل بھی خود دیے تھے۔

’کمپنی نے غلطی تسلیم کی‘

لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کے مطابق ٹی سی ایس کمپنی کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ ’واقعہ مدعی کی اپنی غلطی تھی کہ انھوں نے جس خاتون کو موبائل بھیجا تھا اس کے بارے میں انھیں کو کچھ معلوم نہ تھا۔‘

’موبائل اب کمپنی کے پاس موجود ہے جو کمپنی نے (عامر سے) واپس لے لیا تھا، لہذا نقصاں کا کوئی سوال پیدا نہیں ہوتا۔‘

تاہم لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے میں کہا گیا کہ اپیل کنندہ کمپنی (ٹی سی ایس) نے تسلیم کیا کہ اس نے موبائل فون عامر کو دے دیا تھا جو اصل وصول کنندہ نہ تھا۔

فیصلے میں کہا گیا کہ مدعی نے خود پیش ہو کر دلائل دیے کہ وہ شازیہ سعید کو ذاتی طور پر نہیں جانتے تھے بلکہ وہ صرف اُس کے فیس بک فرینڈ تھے۔

’کمپنی وہ موبائل صرف اُس کو دینے کے پابند تھی جس کے بارے میں مدعی نے ہدایات دی گئی تھیں اور اگر وہ شخص (فیس بُک فرینڈ) جعلی تھیں تو کمپنی موبائل مدعی کو واپس بھیج دیتی۔‘

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ مدعی نے پہلے صرف 24 ہزار روپے ہرجانہ مانگا تھا لیکن کوریئر کمپنی نے اسےعدالت کے چکر لگوائے، اس لیے ایک لاکھ 24 ہزار روپے ہرجانہ بالکل جائز ہے۔

’کمپنی ہرجانہ ادا کرنے کی پابند ہے‘

مواد پر جائیں
بی بی سی اردو اب واٹس ایپ پر

بی بی سی اردو کی خبروں اور فیچرز کو اپنے فون پر حاصل کریں اور سب سے پہلے جانیں پاکستان اور دنیا بھر سے ان کہانیوں کے بارے میں جو آپ کے لیے معنی رکھتی ہیں

سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں

مواد پر جائیں

لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے میں کہا گیا کہ تمام دلائل سنے گئے اور ریکارڈ کا جائزہ لیا گیا۔ ’مدعی نے واضح ہدایات کے ساتھ ایک قیمتی موبائل فون ’سیلف کلیکشن‘ کے ذریعے بک کروایا تھا اور اس کی انشورنس فیس بھی ادا کی تھی۔‘

فیصلے میں کہا گیا کہ ’سیلف کلیکشن‘ کے تصور کا تقاضہ یہ ہے کہ پارسل صرف اور صرف سخت شناخت کی تصدیق کے بعد ہی اصل شخص کو دیا جائے، بالخصوص جب سامان قیمتی ہو اور انشورنس کور موجود ہو۔‘

’شناخت کی تصدیق نہ کرنا اور پارسل کسی غیر مجاز شخص کے حوالے کر دینا معاہدے کی خلاف ورزی بھی ہے اور غفلت بھی۔‘

فیصلے میں کہا گیا کہ دراصل جو دھوکہ دہی مدعی کے ساتھ ہوئی وہ اپیل کنندہ کمپنی کی اسی غفلت اور فرض سے انحراف کی وجہ سے ممکن ہو سکی۔

فیصلے میں کہا گیا کہ اپیل کنندہ کمپنی نے اپنی غلطی تسلیم کر لی اور یہ بھی مانا کہ جعلی شخص نے اپنی غلطی تسلیم کرتے ہوئے موبائل فون واپس کر دیا۔

فیصلے میں کہا گیا کہ ’اس لیے یہ بالکل غیر متعلق ہے کہ اصل وصول کنندہ جعلی تھیں اور مدعی دھوکہ کھا گیا۔ یہ دلیل اپیل کنندہ کمپنی کو اپنے فرضِ میں احتیاط سے بری الذمہ نہیں کر سکتی۔ سروس فراہم کرنے والے، بالخصوص لاجسٹکس اور انشورڈ سامان سے متعلق اداروں کا فرض ہے کہ وہ ایسی لغزشیں رونما نہ ہونے دیں۔ کسی نامعلوم تیسرے فریق کے بہانے پر بغیر دستاویزی تصدیق کے بھروسہ کرنا کنزیومر پروٹیکشن کے معقول معیار کی صریح خلاف ورزی ہے۔‘

فیصلے میں مزید کہا گیا کہ مذکورہ بالا حقائق اور اپیلنٹ کمپنی کی تسلیم شدہ غلطی کی روشنی میں موبائل فون کا بعد میں واپس مل جانا اس خلاف ورزی کو ختم نہیں کرتا اور نہ ہی ہرجانے کے دعوے کو کمزور کرتا ہے، بالخصوص جب مدعی کو ذہنی اذیت، تاخیر، پریشانی اور قانونی کارروائی کا سامنا کرنا پڑا۔ لہٰذا کنزیومر کورٹ کا فیصلہ غلط نہیں۔‘

عدالت

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشنعدالتی فیصلے میں کہا گیا کہ کوریئر کمپنی نے تسلیم کیا کہ اس نے موبائل فون عامر نامی شخص کو دیا جو اصل وصول کنندہ نہ تھا

’عدالتی فیصلہ ایک سنگ میل‘

سپریم کورٹ آف پاکستان کے وکیل ظفر اقبال ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ لاہور ہائی کورٹ کا یہ فیصلہ صرف ایک کوریئر کمپنی کے خلاف کارروائی نہیں بلکہ پاکستان میں صارف کے تحفظ کے قانونی فریم ورک کی واضح توثیق ہے۔

’عدالت نے واضح کیا کہ صارف اور سروس فراہم کرنے والے کے درمیان طے شدہ شرائط کی خلاف ورزی نہ صرف نجی کوتاہی ہے بلکہ یہ قانوناً قابلِ گرفت اقدام بھی ہے، خصوصاً جب معاملہ قیمتی اور بیمہ شدہ سامان کا ہو۔‘

ظفر اقبال ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ عدالت نے بالواسطہ طور پر آئینِ پاکستان کے آرٹیکل 4 اور آرٹیکل 9 کو بھی تقویت دی۔

’آرٹیکل 4 شہری کے ساتھ قانون کے مطابق برتاؤ کی ضمانت دیتا ہے جبکہ آرٹیکل 9 زندگی کے حق میں ذہنی سکون، وقار اور معاشی تحفظ کو بھی شامل کرتا ہے۔ کسی صارف کو غیر یقینی، ذہنی اذیت اور قانونی دھکم پیل میں مبتلا کرنا ان آئینی اصولوں کے منافی ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ اس فیصلے میں یہ اصول بھی واضح کیا گیا کہ صارف کی سادہ لوحی یا کسی تیسرے فرد کی دھوکہ دہی، سروس فراہم کرنے والے ادارے کو اپنی ذمہ داری سے بری الذمہ نہیں کرتی۔

’کوریئر اور لاجسٹکس کمپنیاں محض درمیانی واسطہ نہیں بلکہ وہ مکمل طور پر صارف کے اعتماد اور محفوظ ترسیل کی ذمہ دار ہوتی ہیں۔‘

ظفر اقبال ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ ’مجموعی طور پر یہ فیصلہ تمام سروس فراہم کنندگان کے لیے ایک واضح پیغام ہے کہ صارف کا تحفظ محض اخلاقی نہیں بلکہ قانونی اور آئینی ذمہ داری ہے۔ یہ فیصلہ مستقبل میں کنزیومر کورٹس اور اعلیٰ عدالتوں میں صارفین کے حق میں ایک مضبوط حوالہ بن چکا ہے۔‘

صارف دھوکا دہی پر کیا کرے؟

نیٹ ورک فار کنزومیر پاکستان کے چیف ایگزیکٹیو ندیم اقبال کے مطابق دھوکہ دہی یا سروس میں کوتاہی کی صورت میں سب سے پہلے صارف تمام شواہد محفوظ کرے، جن میں رسیدیں، ٹریکنگ نمبر، ای میلز، واٹس ایپ پیغامات اور کمپنی سے ہونے والی گفتگو کا ریکارڈ شامل ہے کیونکہ یہ ثبوت عدالت میں صارف کے مؤقف کی بنیاد بنتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اس کے بعد متعلقہ کمپنی کو تحریری قانونی نوٹس بھجوایا جائے، جس میں واضح طور پر دھوکہ دہی، نقصان اور ہرجانے کا مطالبہ درج ہو۔ اگر کمپنی جواب نہ دے یا ذمہ داری قبول نہ کرے تو یہ بات صارف کے حق میں جاتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اگلا مرحلہ ضلع کی کنزیومر کورٹ سے رجوع کرنا ہوتا ہے اور پاکستان کے تمام صوبوں میں ضلعی سطح پر کنزیومر کورٹس موجود ہیں۔

ان عدالتوں میں صارف خود بھی درخواست دائر کر سکتا ہے اور وکیل کا ہونا لازمی نہیں جبکہ اپنی درخواست میں نقصان، ذہنی اذیت اور عدالتی اخراجات کا ذکر بھی کیا جا سکتا ہے۔