اکشے کھنہ کے کردار ’رحمان ڈکیت اور اورنگزیب‘: جب فلم میں وِلن کا کردار ہیرو سے بھی بڑا ہو جائے

Akshay Khanna

،تصویر کا ذریعہMaddock Films/Trailer Grab

    • مصنف, یاسر عثمان
    • عہدہ, بی بی سی ہندی

عموماً ایسا ہی ہوتا ہے کہ جب کسی فلم کا اعلان ہوتا ہے تو فلم بین پہلی بات یہی دیکھتے ہیں کہ اس کہانی کا مرکزی کردار یعنی ہیرو اور ہیروئین کون ہیں اور پروڈکشن کمپنی کی سوشل میڈیا مشینری بھی ان ہی مرکزی کرداروں کا نام استعمال کر کے پبلسٹی میں لگ جاتی ہے۔

لیکن اگر آپ فلموں کے شوقین ہیں تو یہ بات ضرور جانتے ہوں گے کہ کچھ وِلنز بھی ایسے ہوتے ہیں جو نہ صرف اچھی اداکاری کر کے فلم کا میلہ لوٹ لیتے ہیں بلکہ اکثر انھیں ہیرو اور ہیروئین سے زیادہ پزیرائی بھی ملتی ہیں۔

ماضی کی ہی مثال لے لیجیے: دہائیوں قبل امجد خان یعنی فلم شعلے کے گبر سنگھ کے الفاظ ’کتنے آدمی تھے‘ آج بھی جے اور ویرو (امیتابھ بچن اور دھرمیندر) کے درجنوں ڈائیلاگز پر بھاری ہے۔

فلم مسٹر انڈیا میں انیل کپور کے غائب ہونے کی کہانی سے زیادہ آج بھی فلم کے منفی کردار امریش پوری کا ڈائیلاگ ’موگیمبو خوش ہوا‘ سُننے میں آتا ہے۔

ان فلموں کے ریلیز ہونے کے دہائیوں بعد بھی منفی کرداروں کا ہیرو اور ہیروئین سے زیادہ داد سمیٹنے کا ٹرینڈ ختم نہیں ہوا۔

اسی ٹرینڈ کی تازہ مثال فلم دھروندھر ہے جس میں ہیرو تو رنویر سنگھ ہیں لیکن فلم میں ان کے کردار سے زیادہ فلم کے وِلن ’رحمان ڈکیت‘ یعنی اکشے کھنہ ہر طرف چھائے ہوئے نظر آتے ہیں۔

نہ صرف ایک عربی گانے پر اکشے کھنہ کا رقص سوشل میڈیا پر چھایا ہوا ہے بلکہ ان کا ایک ڈائیلاگ ’رحمان ڈکیت کی دی ہوئی موت بہت قصائی نما ہوتی ہے‘ بھی ہر زبان پر نظر آ رہا ہے۔

اکشے کھنہ کا کیس زیادہ دلچسپ اس لیے بھی ہے کہ وہ خود نمائی پر یقین نہیں رکھتے اور میڈیا کی چکا چوند اور انٹرویوز سے دور رہنا پسند کرتے ہیں۔

Akshay

،تصویر کا ذریعہGetty Images

اکشے اتنے تنہائی پسند ہیں کہ ایک مرتبہ ڈائریکٹر کرن جوہر نے کہا تھا کہ اگر چھٹی والے دن اکشے کھنہ کو آسکر ایوارڈ دینے کا اعلان ہو تو وہ یہ کہہ کر معذرت کر لیں گے کہ وہ چھٹی والے دن گھر سے باہر نہیں نکلتے۔

تاہم جب یہ اداکار سکرین پر نظر آتے ہیں تو اپنے ساتھی اداکاروں کو اکثر پیچھے چھوڑ جاتے ہیں۔

’ایک اچھی ٹیم کے بغیر کوئی اداکار کچھ بھی نہیں‘

جولائی 2017 میں مجھے اکشے کھنہ کا ایک انٹرویو کرنے کا موقع ملا تھا۔ میں نے ان سے پوچھا کہ ان کی فلمیں اتنی تاخیر سے کیوں سامنے آتی ہیں؟

انھوں نے جواب دیا کہ ’دیکھیں اداکار ہونا آسان کام نہیں۔ ایک اداکار اس دنیا کی سب سے حساس اور دوسروں پر انحصار کرنے والی شخصیت ہوتی ہے۔ رائٹنگ اور میوزک کمپوزنگ تنہائی میں ہو سکتی ہے لیکن ایک اداکار تنہا کچھ نہیں کر سکتا۔‘

’ہمیں ایک اچھے ہدایتکار، مصنف، کیمرا مین اور دیگر اچھے اداکاروں کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایک اچھی ٹیم کے بغیر ہم کچھ بھی نہیں۔‘

’میرا بات کرنے کا دل نہیں چاہتا‘

انٹرویو کے بعد میں نے اکشے سے پوچھا تھا کہ کہیں میرے کسی سوال سے انھیں پریشانی تو نہیں ہوئی؟ انھوں نے فوراً جواب دیا کہ ’نہیں، بس میرا بات کرنے کا دل نہیں چاہتا۔‘

میں ان کے اس بےدھڑک جواب پر دنگ رہ گیا۔ وہ وہاں ایک بڑی فلم کی پروموشن کے لیے آئے تھے وہ بھی برسوں کے وقفے کے بعد لیکن اس کے باوجود بھی انھیں میڈیا میں خود کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔

دھروندھر کی پروموشن کی تقریبات میں بھی اکشے کھنہ زیادہ نظر نہ آئے لیکن اس فلم کی ریلیز کے بعد وہ ہی سب سے زیادہ وائرل ہوئے ہیں۔

انھیں اپنی اداکاری اور اپنی ٹیم پر پورا بھروسہ تھا اور یہی بھروسہ اس فلم میں ان کی کامیابی کا راز بنا۔

تقریباً 28 برس قبل ونود کھنہ نے اپنے بیٹے کو فلم ’ہمالیہ پُتر‘ کے ذریعے فلم انڈسٹری میں متعارف کروایا تھا اور اس وقت کسی نے سوچا بھی نہیں تھا کہ اکشے انڈسٹری کے ایک انوکھے اداکار کی شکل میں سامنے آئیں گے۔

اکشے کو بطور مرکزی کردار زیادہ پزیرائی نہیں مل سکی۔ کیریئر کے ابتدائی برسوں میں ’بارڈر‘ ان کے لیے ایک بڑی فلم تھی، جس میں ان کے علاوہ درجن بھر دیگر اداکار تھے۔

اس کے علاوہ قدرت، ڈولی سجا کے رکھنا، لاوارث اور ’آ اب لوٹ چلیں‘ جیسی فلموں میں انھوں نے مرکزی کردار ادا کیے لیکن یہ کہانیاں باکس آفس پر نہیں چل سکیں۔

سبھاش گھائی کی فلم ’تال‘ اکشے کھنہ کے لیے ایک بڑی فلم ثابت ہوئی لیکن اس میں بھی ان کے ساتھ ایشوریا رائے اور انیل کپور تھے۔

’بال گِرنے سے اعتماد کو ٹھیس پہنچی‘

شاید جلد ہی سر کے بال گِرنے سے اکشے کھنہ کو فلموں کے فلاپ ہونے سے زیادہ دکھ ہوا تھا اور ان کے کیریئر کو بھی اس سے دھچکا لگا۔

انڈین فلم انڈسٹری میں کسی بھی ہیرو کا ہیر سٹائل بہت معنی رکھتا ہے لیکن اکشے کے بال کم عمری میں ہی بہت تیزی سے گِر رہے تھے۔

سنہ 2001 میں فرحان اختر کی فلم ’دل چاہتا ہے‘ میں اکشے کمار کو ایک نئے روپ میں دکھایا گیا: ماڈرن، سٹائلش اور میچور۔

اس کردار کے ذریعے انھیں شہری فلم بینوں میں بہت پزیرائی ملی۔

اس فلم میں ان کے سٹائل سے ایک بات بہت واضح ہو گئی تھی کہ اکشے کہ بال بہت تیزی سے گِر رہے ہیں۔

دیگر اداکار اس پریشانی سے بچنے کے لیے ہیر ٹرانسپلانٹ کی راہ لیتے ہیں لیکن اکشے نے کسی نامعلوم وجہ کے سبب ایسا نہیں کیا۔

کچھ برسوں بعد انھوں نے مینک شرما کو ایک انٹرویو میں اپنے بالوں پر بھی بات کی تھی: ’بال گِرنے سے آپ کے اعتماد کو ٹھیس پہنچتی ہے۔ یہ میرے ساتھ کم عمری میں ہونا شروع ہو گیا تھا اور یہ ایسا ہے کہ آپ کسی پیانو بجانے والے شخص سے اس کی انگلیاں چھین لیں۔‘

واپسی کا سال

’دل چاہتا ہے‘ کہ بعد اکشے کمار نے عباس مستان اور پریادرشن کی متعدد فلمیں کیں اور وہ ہنگامہ، ہمراز، نقاب اور ریس کے ذریعے ایک بار پھر شہرت کی بلندیوں پر پہنچ گئے۔

تاہم ان فلموں میں بھی وہ سولو ہیرو یعنی واحد مرکزی کردار نہیں تھے۔

اکشے کو اس وقت یہ اندازہ ہو گیا تھا کہ شاید انھیں مرکزی کردار سے زیادہ سپورٹنگ کردار کرنے چاہیے۔

Akshay Kumar

،تصویر کا ذریعہGetty Images

اکشے شاید وہ واحد انڈین ہیرو ہیں جو اتفاق اور دریشم جیسے فلموں میں بغیر بالوں کے نظر آئے اور اس کے باوجود بھی شائقین کی توجہ خود پر مرکوز کرنے میں کامیاب رہے۔

جب لوگ دھروندھر فلم میں رحمان ڈکیت کے کردار کی بات کر رہے ہیں، اسی وقت وہ یہ بھول رہے ہیں کہ بلاک بسٹر فلم ’چھاوا‘ میں اکشے کھنہ نے اورنگزیب کا کردار ادا کیا تھا اور یہ کردار انڈین فلم انڈسٹری کی تاریخ کا ایک طاقتور ترین کردار تھا۔

دھروندھر اور چھاوا یعنی ایک برس میں دو کامیاب فلمیں۔ یہ کہنا بے جا نہیں ہوگا کہ سنہ 2025 اکشے کھنہ کی واپسی کا سال ہے۔