جمعرات کی دوپہر تقریباً ایک بجے پاکستان کے میڈیا پر پاکستان کی خفیہ ایجنسی، آئی ایس آئی، کے سابق سربراہ لیفٹینینٹ جنرل ریٹائرڈ فیض حمید کو کورٹ مارشل کی کارروائی میں چار الزامات ثابت ہونے پر 14 سال قید بامشقت کی سزا کی خبریں بریکنگ نیوز کے طور پر چلنا شروع ہوئیں اور دیکھتے ہی دیکھتے سوشل میڈیا پر کورٹ مارشل،آرمی ایکٹ اور ڈی جی آئی ایس آئی سمیت اس خبر سے متعلق دیگرہیش ٹیگ ٹرینڈ کرنے لگے۔
سوشل میڈیا پر جہاں عام لوگ اس خبر کو شیئر کرتے اور تبصرے کرتے دکھائی دیے وہیں کئی صحافیوں، تجزیہ کاروں اور سیاستدانوں نے اس خبر سے متعلق اپنی آرا دینا شروع کر دیں۔
پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل فیض کو سزا ملنے کے فیصلے پر اپنے ٹوئٹر اکاونٹ پر پوسٹ میں لکھا کہ ’قوم برسوں فیض حمید صاحب اور جنرل باجوہ کے بوے ہوئے بیجوں کی فصل کاٹے گی۔‘
یاد رہے کہ جمعرات کے روز لیفٹینینٹ جنرل ریٹائرڈ فیض حمید کو فوجی عدالت نے کورٹ مارشل کی کارروائی میں چار الزامات ثابت ہونے پر 14 سال قید بامشقت کی سزا سنائی ہے۔
سماجی رابطے کی ویب سائٹ ’ایکس‘ پر اپنے بیان میں خواجہ آصف نے مزید لکھا ہے کہ ’اللہ ہمیں معاف کرے، طاقت اوراقتدار کو اللہ کی عطا سمجھ کے اس کی مخلوق کے لیے استعمال کی توفیق عطا فرمائے۔ خوف خدا حکمرانوں کا شیوہ بنے۔‘
اب دیکھنا یہ ہے کہ آگے کیا ہوتا ہے: مظہر عباس
دوسری جانب صحافی اور تجزیہ کار مظہر عباس نے سوشل میڈیا پر اپنی پوسٹ میں فوجی عدالت کے اس فیصلہ کو پاکستان کی سیاست پر گہرا اثر ڈالنے کے مترادف قرار دیا۔
مظہر عباس نے لکھا کہ پاکستان کے طاقتور ترین سابق آئی ایس آئی چیف، لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کو سیاسی سرگرمیوں میں ملوث ہونے اور اختیارات کے غلط استعمال پر فیلڈ جنرل کورٹ مارشل نے 14 سال کی سزا سنائی ہے۔‘
وہ مزید لکھتے ہیں کہ ’اب دیکھنا یہ ہے کہ آگے کیا ہوتا ہے۔ آج کا فیصلہ یقیناً پاکستان کی سیاست پر دور رس اثرات ڈالے گا۔ شاید انھیں اب بھی سپریم کورٹ میں اپیل کا حق حاصل ہو تاہم ابھی کچھ کہا نہیں جا سکتا۔ ہم اس اہم مقدمے اور فیصلے کی مزید تفصیلات جاننے کے منتظر ہیں۔‘
ملکی اور بین الاقوامی امور پر گہری نظر رکھنے والے صحافی سلمان مسعود کے مطابق ’کہانی ابھی ختم نہیں ہوئی۔‘
’کورٹ مارشل میں سزا سنایا جانا گویا پہلے سے طے شدہ نتیجہ محسوس ہوتا ہے۔ لیکن آئی ایس پی آر کے اعلامیے کا آخری پیراگراف خاصا اہم ہے۔ جس میں فیض حمید کسے متعلق کہا گیا ہے کہ ’مجرم کی سیاسی کرداروں سے مل کر سیاسی ہنگامہ آرائی اور عدم استحکام پھیلانے کی کوششوں سمیت چند دیگر معاملات کو الگ سے دیکھا جا رہا ہے۔‘ تو گویا کہانی ابھی ختم نہیں ہوئی۔‘
اس خبر کے سامنے آنے کے بعد اہاں صارفین اپنی آرا کا اظہار کرتے رہے وہیں جنرل ریٹائرڈ فیض حمید کی اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان کے ساتھ ان کی تصاویر بھی کئی صارفین نے شیئر کیں۔
یاد رہے کہ فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کی جانب سے جمعرات کو جاری کردہ ایک پریس ریلیز کے مطابق آئی ایس آئی کے سابق سربراہ کو یہ سزا 12 اگست 2024 کو پاکستان آرمی ایکٹ کے تحت شروع ہونے والے فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کی 15 ماہ کی کارروائی کے بعد سنائی گئی۔
یہ پہلا موقع ہے کہ پاکستان میں آئی ایس آئی کے کسی سربراہ کو کورٹ مارشل کے بعد سزا سنائی گئی ہے۔
’فیض، باجوہ اورعمران خان سے فائدہ اٹھانے والے آج ہمیں قانون اور اخلاقیات کے لیکچر دے رہے ہیں۔‘
پاکستان کے سوشل میڈیا پر کئی صارفین ایسے بھی ہیں جنھوں نے فیض حمید کے ساتھ اس وقت کے آرمی چیف جنرل باجوہ کے کردار پر بھی بات کی۔
صحافی اور تجزیہ کار فہد حسین نے بھی آئی ایس پی آر کے پریس ریلیز کی آخری لائن کو معنی خیز قرار دیا جبکہ صحافی اور تجزیہ نگار طلعت حسین نے ایکس پر لکھا ہے کہ ’اب جبکہ جنرل ریٹائرڈ فیض حمید کو قرار واقعی سزا ملی، جنرل ریٹائرڈ باجوہ جیسے لوگ آزاد گھوم رہے ہیں۔‘
انھوں نے لکھا کہ ’یہ بات بھی خاصی ناخوشگوار دکھائی دیتی ہے کہ فیض، باجوہ اورعمران خان سے فائدہ اٹھانے والے آج ٹی وی سکرینوں پر ہمیں قانون اور اخلاقیات کے لیکچر دے رہے ہیں۔‘
طلعت حسین نے لکھا کہ ’اپنے ماضی کو نہ ماننا کم ظرفی ہے۔ لیکن کردار کی پستی یہ بھی ہے کہ کہ آج شدت سے اس چیز کی مذمت کی جائے جسے ماضی میں آپ نے صدق دل سے قبول کیا تھا۔ افسوسناک۔‘