کیا لداخ کے پانچ ہزار بروکپا خالص آریائی ہیں؟

،تصویر کا ذریعہRAJESH JOSHI/BBC

    • مصنف, دیپک شرما
    • عہدہ, نمائندہ بی بی سی، لداخ

انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں لداخ کے دور دراز علاقے میں آباد تقریبا پانچ ہزار بروکپا خود کو دنیا کے آخری بچے ہوئے 'خالص آریائی' کہتے ہیں۔

کیا یہ لوگ واقعی اسی نسل سے آتے ہیں جسے نازی جرمنی والے 'ماسٹر ریس' یا برتر نسل کہتے تھے۔ یا پھر یہ دعوے محض اساطیر کا حصہ ہیں جسے قائم رکھنا ان لوگوں کے لیے سود مند ہے۔

ہمارے زمانے کے سب سے معروف میدان جنگ کرگل کو دیکھنے کا اشتیاق کشمیر کے پرپیچ سفر کو بوجھل نہیں ہونے دیتا۔

یہ بھی پڑھیے

لیہ سے شمال مغرب کی جانب بڑھتے ہی ذہن میں پہلا خیال کرگل کا آتا ہے لیکن بی بی سی کی ٹیم اس سفر پر کسی دوسرے مقصد کے لیے نکلی تھی۔

لیہ سے بٹالک کا تقریبا چار گھنٹوں کا راستہ کسی وسیع عمدہ شاہراہ سے کم نہیں۔ اس کے بعد سڑک تنگ ہوتی جاتی ہے اور دریائے سندھ کے ساتھ ساتھ چلنے لگتی ہے۔

،تصویر کا ذریعہRAJESH JOSHI/BBC

کچی پکی سڑکوں سے دو گھنٹے کے سفر کے بعد آپ گارکون گاؤں پہنچتے ہیں۔

گاؤں سے ذرا پہلے بیاما میں آپ کی توجہ ان گھروں کی جانب جاتی ہے جو سنہ 2015 میں آنے والے سیلاب میں ڈوب گئے تھے۔

چٹیل اور سنگلاخ پہاڑوں پر سرسبز زینے جیسے کھیت یہاں آباد لوگوں کی سخت کوشی کے گواہ ہیں لیکن اس جگہ کی سب سے بڑی خاصیت یہاں کے باشندے ہی ہیں۔

بروکپا مخصوص کیوں ہیں؟

گارکون کے بچے، بوڑھے اور نوجوان اب دور دراز کے شہروں سے آنے والوں کو دیکھ کر متحیر نہیں ہوتے۔ وہ اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ ان شہریوں کو کون سی چیز یہاں کھینچ لائی ہے۔

گاؤں کے کسی بھی شخص کے ساتھ پانچ منٹ کی گفتگو میں آپ از خود اس سوال کی جانب آ جاتے ہیں کہ آیا وہ خالص آریائی نسل سے تعلق رکھتے ہیں۔

،تصویر کا ذریعہRAJESH JOSHI/BBC

انڈیا کے ایک شہر چندی گڑھ میں تعلیم حاصل کرنے والی سونم لھامو بتاتی ہیں کہ ان کے یہاں نسل در نسل خالص آریائی ہونے کی بات چلی آ رہی ہے۔

وہ کہتی ہیں: 'آپ نے پڑھا ہوگا کہ آرین دراز قد اور گورتے ہوتے تھے۔ آپ یہاں یہی بات دیکھ سکتے ہیں۔ ہم بھی ان کی طرح فطرت کی پوجا (عبادت) کرتے ہیں۔ ہم اپنی ثقافت کو ہی اپنے خالص آریائی ہونے کا سب سے بڑا ثبوت مانتے ہیں۔'

ان کا کہنا ہے کہ بیاما، گارکون، دارچک، داہ اور ہانو گاؤں کے لوگوں کی شکلیں باقی لداخ کے منگول نین نقش سے بالکل مختلف ہیں۔

بروکپا کا نام انھیں لداخ کی باقی آبادیوں سے ہی ملا ہے۔ مقامی زبان میں اس کا مطلب 'خانہ بدوش' ہوتا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

بودھ مذہب سے تعلق رکھنے کے باوجود بروکپا مختلف دیوی دیوتاؤں میں یقین رکھتے ہیں اور آگ جیسی قدرتی طاقتوں کو پوجتے ہیں۔ ان کے یہاں قربانی کی روایت ابھی تک زندہ ہے جبکہ نئی نسل میں اس کی مخالفت بھی نظر آتی ہے۔

آگ اور قدرت کی دوسری چیزوں کی پوجا اور قربانی کا ذکر ہندو مذہب کی کتابوں (ویدوں) میں بھی ملتا ہے۔

،تصویر کا ذریعہRAJESH JOSHI/BBC

تاہم بروکپا کی تہذیب میں بکریوں کو گائے سے زیادہ اہمیت حاصل ہے۔ وقت کے ساتھ اب ان کے یہاں گائے بیل نظر آنے لگے ہیں لیکن ان کی پہلی پسند اب بھی بکری کا دودھ اور ان سے بنا گھی ہے۔

بہرحال، لداخ کے دوسرے باشندوں سے مختلف ہونا ہی ان کے خالص آرین ہونے کی دلیل نہیں ہو سکتی۔

اسی قبیلے سے تعلق رکھنے والے سوانگ گیلسن کرگل کے کالج میں پڑھاتے ہیں۔ ان کی دلچسپی ان کی اپنی تاریخ کی تلاش میں ہے۔

یہ بھی پڑھیے

وہ کہتے ہیں: 'کئی مؤرخوں نے اس کی جانب اشارہ کیا ہے۔ مثلا جرمن تاریخ داں اے ایچ فرینکی نے اپنی کتاب 'دی ہسٹری آف ویسٹرن تبّتن' میں ہماری آبادی کو سٹاک کا نام دیا ہے۔'

حال ہی میں اپنی زبان کی لغت تیار کرنے والے گیلسن سنسکرت زبان کے ساتھ اپنی زبان کی مماثلت کا ذکر کرتے ہیں۔

،تصویر کا ذریعہRAJESH JOSHI/BBC

ان کا کہنا ہے کہ لداخ میں رائج دوسری زبانوں کے برخلاف ان کی زبان میں سنسکرت کے کئی الفاظ موجود ہیں۔

مثال کے طور پر گھوڑے کے لیے 'اشو' اور سورج کے لیے 'سوریہ' وغیرہ ہیں۔ اس کے علاوہ ہندسے بھی ملتے ہیں۔

گیلسن نے بتایا کہ ایک روایت میں آتا ہے کہ ان کی نسل سکندر کے سپاہیوں سے آتی ہے۔ خیال رہے کہ پاکستان میں کیلاش کے لوگ، ہماچل میں ملانا نسل کے لوگ اور بڑا بھنگال کے علاقے میں بھی بعض قبیلے اسی قسم کا خالص آریائی نسل ہونے کا دعوی کرتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

بروکپا کے لوک گیتوں میں اس کا ذکر ملتا ہے کہ ان کے آباء ساتویں صدی عیسوی میں گلگت بلتستان سے آ کر بٹالک کے آس پاس اس علاقے میں آباد ہوئے تھے۔

ان کا سب سے بڑا تہوار بونوما اکتوبر میں دھان کی فصل کی کٹائی کے وقت منایا جاتا ہے۔

ہر بروکپا گاؤں اسے باری باری منعقد کرتا ہے۔ ایک سال پاکستان کے علاقے میں آباد ان کے ایک گاؤں گنوک کے لیے بھی مختص ہے۔

بہرحال یہ بتانا مشکل ہے کہ سرحد پار پاکستان کے اس گاؤں میں اس روایت کو اب بھی منایا جاتا ہے یا نہیں۔

آرینز کی تاریخ کیا ہے؟

آج کے ہندوستان میں یہ سوال سیاست سے ماورا نہیں لیکن یہ سچ ہے کہ آرین کے بارے میں کوئی ایک رائے نہیں ہے۔

بیسویں صدی کے دوران یہ خیال ظاہر کیا جاتا رہا کہ انڈو یورپی زبانیں بولنے والے یہ لوگ 2000 سے 1500 قبل مسیح کے دوران وسط ایشیائی ممالک سے ہندوستان آئے ہوں گے۔

،تصویر کا ذریعہRAJESH JOSHI/BBC

اختلاف رائے اس بات پر ہے کہ یہ لوگ حملہ آور تھے یا پھر خوراک حاصل کرنے کے بہتر مواقع کے لیے ادھر آ نکلے تھے۔ گذشتہ دو دہائیوں میں آریوں کے بارے میں اس خیال کی بھی ترویج ہوئی ہے کہ وہ بنیادی طور پر ہندوستانی باشندے تھے۔

برطانیہ کی ہرڈس فیلڈ یونیورسٹی کے پروفیسر مارٹن پی رچرڈز کی سربراہی میں 16 سائنسدانوں کی ایک ٹیم نے اس حقیقت کو جاننے کے لیے وسط ایشیا، یورپ اور جنوبی ایشیا کی آبادی کے کئی Y کروموزم کا مطالع کیا۔ خیال رہے کہ Y کروموزوم صرف والد سے بیٹے کو ملتا ہے۔

اس تحقیق کے مطابق، کانسی کے عہد (3000سے1200 قبل مسیح) میں نقل مکانی کرنے والوں میں مردوں کی اکثریت ہوتی تھی۔

گذشتہ سال مارچ میں شائع ہونے والی اس تحقیق میں لکھا ہے: 'ہماری تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ خواتین کی جین بہت حد تک مکمل طور پر دیسی ہیں اور 55 ہزار سال قبل یہاں آباد پہلے انسانوں سے بہت مماثلت رکھتی ہیں، لیکن مردوں کی جین مختلف ہیں اور ان کا تعلق جنوب مغربی ایشیا اور وسطی ایشیا سے ہے۔'

تحقیق میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ نقل مکانی کا یہ سلسلہ ہزاروں سال پر محیط ہوگا۔

اگر آرین واقعی وسط ایشیا میں دریا اخضز (کیسپین سی) کے ارد گرد گھاس کے میدان والے علاقوں سے آئے تھے تو پھر ممکنہ طور پر ان کا راستہ گلگت بلتستان سے ہو کر گزرا ہوگا۔

گیلسن بھی بروکپا کے ڈی این اے کی جانچ کی کوشش کر رہے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ اس پر ابھی مزید تحقیقات کی ضرورت ہے۔ 'آرین کی تاریخی تصویر فاتح کی رہی ہے۔ اسی لیے آج کے بروکپا نوجوانوں میں اس کے متعلق جوش دیکھا جاتا ہے لیکن میرا خیال ہے کہ مزید تصدیق کی ضرورت ہے۔'

،تصویر کا ذریعہRAJESH JOSHI/BBC

حمل کے سیاحت کی کہانیاں

انٹرنیٹ کی آمد کے بعد بروکپا کی اس شناخت نے دنیا بھر کے لوگوں کی توجہ اپنی جانب مبذول کی۔ ان گاؤں میں 'خالص آرین تخم' کے لیے جرمن خواتین کی آمد کے قصے مشہور ہیں۔

سنہ 2007 میں فلم ساز سنجیو سوین کی دستاویزی فلم میں ایک جرمن خاتون کیمرے کے سامنے اس بات کو قبول کرتی ہے۔

زیادہ تر بروکپا اس کے متعلق بات کرنے سے گریز کرتے ہیں۔

لیکن بٹالک میں ایک دکاندار نے نام پوشیدہ رکھنے کی شرط پر بتایا کہ 'ایک جرمن خاتون نے کئی سال پہلے مجھے لیہ کے ہوٹلوں میں اپنے ساتھ رکھا۔ حاملہ ہونے کے بعد وہ جرمنی لوٹ گئی۔ چند سالوں کے بعد وہ اپنے بچے کے ساتھ ملنے بھی آئی تھی۔'

آج کے بروکپا کیا چاہتے ہیں؟

بروکپا کی موجودہ نسل میں تعلیم پر خصوصی زور ہے۔ لڑکیوں کو پڑھانے اور کریئر کے برابر مواقع ہیں لیکن ملازمتیں محدود ہیں۔

آمدنی کا سب سے بڑا ذریعہ خوبانی کی باغبانی ہے یا پھر فوج اور سرحدی سڑک کی تعمیر میں ملنے والی مزدوری ہے۔

،تصویر کا ذریعہRAJESH JOSHI/BBC

بجلی آج بھی صبح اور شام صرف ایک گھنٹے تک رہتی ہے۔ لیکن سیاحوں کی آمد سے ترقی کی نئی راہیں کھل رہی ہیں۔

موبائل کی آمد کے ساتھ بروکپا نوجوانوں نے سرحد پار سوشل میڈیا کے ذریعہ گلگت کے نوجوانوں سے رابطہ قائم کیا ہے۔

لھامو بتاتی ہیں 'وہاں کے لوگ بھی ہماری زبان میں بات کرتے ہیں اور فخر سے کہتے ہیں کہ وہ آرین ہیں۔'

گیلسن کا کہنا ہے کہ 'روزی روٹی کے ساتھ اپنی منفرد شناخت کو برقرار رکھنا بڑا چیلنج ہے۔'

21 ویں صدی کے ان 'خالص آرینوں کی جنگ ریاست کے لیے نہیں بلکہ روزگار کے لیے ہے لیکن اگر یہ شناخت کھو کر حاصل ہوتی ہے تو اس جنگ میں کامیابی ادھوری رہ جائے گی۔'

۔