لداخ میں انڈیا، چین کا سرحدی تنازع اور سوشل میڈیا پر تیسری عالمی جنگ کا ٹرینڈ: ’انڈیا چین کو دوسرا پاکستان نہ سمجھے‘

،تصویر کا ذریعہAFP
دنیا بھر میں کہیں بھی جب کبھی عالمی طاقتوں میں سے کوئی بھی کشیدگی کا شکار ہوتی ہے تو سوشل میڈیا ویب سائٹ ٹوئٹر پر تیسری عالمی جنگ سے متعلق ٹرینڈ ضرور چلتا ہے۔
آپ اپنے ذہن پر زور ڈالیں اور وبا سے پہلے کی دنیا کے بارے میں سوچیں تو رواں برس جنوری میں ہی تیسری عالمی جنگ سے متعلق گرما گرما بحث اس وقت ہوئی تھی جب امریکہ نے ایرانی جنرل قاسم سلیمانی کو ہلاک کیا تھا۔
تو اگر آپ نے ابھی موبائل اٹھایا ہے اور ٹوئٹر کا جائزہ لیتے وقت آپ کی نظر تیسری عالمی جنگ، لداخ، چین، انڈیا سرحدی کشیدگی اور بالاکوٹ جیسے ٹرینڈز پر پڑی ہے تو گھبرانے کی ضرورت ہے بھی اور نہیں بھی۔
یہ بھی پڑھیے
گھبرائیں اس لیے کیونکہ ایشیا کے دو بڑے ممالک میں ایک بار پھر تناؤ کی کیفیت ہے۔
گذشتہ روز انڈیا اور چین کے درمیان وادی گلوان میں ہونے والی جھڑپوں کے نتیجے میں کم سے کم 20 انڈین فوجی ہلاک ہو گئے تھے اور دونوں ممالک کی متنازع سرحد پر کسی جھڑپ میں ہلاکتوں کا کم از کم 45 برس میں یہ پہلا واقعہ ہے۔
End of سب سے زیادہ پڑھی جانے والی
اب بات کر لیتے ہیں کہ گھبرانے کی ضرورت کیوں نہیں ہے۔ وہ اس لیے کہ جہاں دونوں کے درمیان جھڑپ ہوئی تھی وہاں سے اب فوجیں پیچھے ہٹ گئی ہیں۔
اس حوالے سے یہ کہنا کہ آیا یہ کشیدگی تیسری عالمی جنگ کا پیش خیمہ ثابت ہو گی نہ صرف قبل از وقت ہو گا بلکہ ماضی کے واقعات کا جائزہ لیں تو یقیناً اس بات کے امکانات انتہائی کم ہیں۔

،تصویر کا ذریعہAFP
تو پھر ان ٹرینڈز کے ذریعے صارفین کیا کہنا چاہ رہے ہیں؟
جو بات ان تمام ٹرینڈز میں مشترک ہے وہ یہ کہ زیادہ تر صارفین سال 2020 کی برائیاں بیان کر رہے ہیں۔
ایک صارف نے افریقی ملک گھانا میں جنازوں پر ناچنے والے ایک گروپ کی ویڈیو پوسٹ کی اور کہا کہ یہ ٹرینڈ اس سال دوسری مرتبہ چل رہا ہے۔ ہم یقیناً سال 2021 نہیں دیکھ پائیں گے۔
اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو X کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے X ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔
X پوسٹ کا اختتام, 1
ایک اور صارف نے اس سال پیش آنے والی تمام بری خبروں کی فہرست بنا دی جن میں ظاہر ہے کورونا وائرس کی عالمی وبا سمیت، آسٹریلیا کے جنگلات آگ اور دنیا بھر میں ہونے والے پرتشد مظاہرے شامل تھے۔
انھوں نے آخر میں بس اتنا لکھا کہ ابھی تو صرف جون آیا ہے۔
ایک صارف نے لکھا کہ ہم لاک ڈاؤن سے مظاہروں میں اور اب تیسری عالمی جنگ میں داخل ہونے والے ہیں۔

،تصویر کا ذریعہTwitter/@UCLALonzo
کیونکہ یہ ٹرینڈ دنیا بھر میں چل رہا ہے تو ٹویٹس بھی مختلف ممالک سے دیکھنے کو مل رہی ہیں۔ ایک اور صارف نے لکھا کہ تیسری عالمی جنگ کا ہیش ٹیگ کورونا وائرس سے کامیابی کے ساتھ مقابلہ کرنے کے بعد واپس آ گیا ہے۔
ایک اور صارف روہت والیا نے لکھا کہ تیسری عالمی جنگ کا ٹرینڈ دیکھ کر اس پر کیا گزرے گی جو ابھی کورونا وائرس سے صحتیاب ہوا ہے۔
انڈیا کی بات ہو اور پاکستانی صارفین بحث میں حصہ نہ لیں ایسا تو ہونے سے رہا۔ تو پاکستان میں بالاکوٹ بھی ٹرینڈ کرنے لگا۔
جی ہاں، گذشتہ برس کے آغاز میں انڈیا اور پاکستان کے درمیان کشیدگی کا احوال یقیناً آپ بھی خوب جانتے ہوں گے۔ تو پاکستانی صارفین نے خوب بغلیں بجائیں اور وہی سب لکھ ڈالا جو ہمیشہ سے ایسی کسی سوشل میڈیا بحث میں لکھا جاتا ہے۔
ایک پاکستانی صارف میجر مجمد عاطف نے لکھا کہ آپ نے بالاکوٹ میں ہمارے صرف درختوں کو نقصان پہنچایا تھا لیکن ہم نے آپ کے دو طیارے مار گرائے تھے۔ یہ فرق ہے ہماری افواج میں۔
اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو X کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے X ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔
X پوسٹ کا اختتام, 2
تاہم ہر کوئی مذاق کے موڈ میں نہیں تھا۔ انڈیا میں موجود صارفین ظاہر ہے انڈین فوجیوں کی ہلاکتوں پر غم و غصے کا اظہار کرتے دکھائی دیے۔
اس حوالے سے خاص طور ایک ایسی ٹویٹ پر غصہ اتارا گیا جو چینی اخبار گلوبل ٹائمز کے ایڈیٹر ان چیف ہو شی جن کے ٹوئٹر ہینڈل سے کی گئی تھی۔
اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو X کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے X ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔
X پوسٹ کا اختتام, 3
انھوں نے کہا کہ 20 میں سے17 انڈین فوجی مبینہ طور پر اس لیے ہلاک ہوئے کیونکہ انھیں فوری طبی امداد میسر نہیں تھی جس سے انڈین فوج کی خامیوں کا اندازہ ہوتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ یہ کوئی ایسی فوج نہیں ہے جو چٹانی علاقوں میں لڑنے کی مہارت اور جدید صلاحیتوں سے لیس ہو۔
پھر کیا تھا صارفین نے انھیں شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور ایک انڈین صارف نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ چین کو اب تیار رہنا چاہیے۔
انڈیا میں حزبِ اختلاف کی جماعت انڈین نیشنل کانگریس کے ترجمان پون کھیرا نے 20 فوجیوں کی ہلاکت کی خبر پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ مجھے دھچکہ لگا ہے، میرے پاس الفاظ نہیں ہیں۔ انھوں نے کہا کہ جب تک بدلہ نہیں لیا جائے گا ان اموات کا دکھ تازہ رہے گا۔
تاہم انڈیا میں حکومتی خاموشی کو بھی صارفین آڑے ہاتھوں لیتے نظر آئے۔ خیال رہے کہ انڈیا کی جانب سے چین کے ساتھ سرحدی تنازع شروع ہونے کے بعد سے حکومت کی جانب سے بیان دینے سے پرہیز کیا گیا ہے۔
گذشتہ روز بھی ہلاکتوں کے حوالے سے انڈین فوج کی جانب سے ہی بیان جاری کیا گیا تھا۔
اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو X کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے X ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔
X پوسٹ کا اختتام, 4
صحافی نخل واگلے نے کہا کہ 20 انڈین فوجی ہلاک ہو گئے ہیں اور وزیرِ اعظم مودی سچ بتانے سے بھاگ رہے ہیں۔ وہ شہدا کے خاندانوں کو کیا منہ دکھائیں گے۔
ایک کشمیری سماجی کارکن ٹونی اشے نے لکھا کہ اگر مودی نے چین کے ساتھ وہی غلطی دوہرائی جو اس نے بالاکوٹ میں کی تھی تو انڈیا کو کشمیر سے ہاتھ دھونا پڑیں گے۔
’مودی اس گڑھے میں گر گئے ہیں جو انھوں نے خود کھودا تھا۔‘
ایک اور صارف برکھا دیوا نے لکھا کہ بالاکوٹ حملے کے بعد تو نریندر مودی اور دیگر افراد نے بڑھ چڑھ کر بیان دیے تھے، اب وہ لداخ کے معاملے پر ایک ماہ سے خاموش ہیں۔
انڈیا میں اس ایک اور بحث یہ بھی چل رہی ہے کہ آیا ملک میں اتنی طاقت ہے بھی کہ وہ چین کا مقابلہ کر سکے۔
اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو X کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے X ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔
X پوسٹ کا اختتام, 5
اس کا جواب بسنت مہیشوری نے دیا جو ایک سرمایہ کار اور لکھاری ہیں۔ انھوں نے کہا کہ چین کو ایک ہی طریقے سے ہرایا جا سکتا ہے اور وہ معاشی طور پر طاقت ور بنا جائے۔
انھوں نے لکھا کہ معیشت ہی بہترین ہتھیار ہے اور ہمیں چین کو دوسرا پاکستان نہیں بنا دینا چاہیے۔
اس کے علاوہ گذشتہ ایک ماہ سے انڈیا میں چینی مصنوعات پر پابندی لگانے اور ان کا بائیکاٹ کرنے کے حوالے سے چلائے جانے والے ٹرینڈز کی بھی واپسی ہوئی۔
ایک صارف صبوہی خان نے لکھا کہ اگلی مرتبہ چینی مصنوعات خریدنے سے قبل یہ سوچ لیں کہ آپ دشمن کی گولیوں کے پیسے بھر رہے ہیں۔











