دبئی ایئر شو میں انڈین لڑاکا طیارے کی تباہی: ’550 کروڑ کے تیجس‘ کی خصوصیات کیا ہیں؟

،تصویر کا ذریعہAFP via Getty Images
دبئی میں جاری ایئر شو کے دوران انڈین فضائیہ کا ایک تیجس لڑاکا طیارہ کرتب دکھاتے ہوئے گر کر تباہ ہو گیا ہے۔
انڈین ایئر فورس نے تصدیق کی ہے کہ اس حادثے میں طیارے کا پائلٹ بھی ہلاک ہو گیا ہے۔
یہ حادثہ دبئی ایئر شو کے آخری روز جمعے کو مقامی وقت کے مطابق دوپہر دو بج کر 10 منٹ پر پیش آیا، جب تیجس طیارہ ایک فضائی مظاہرے میں شریک تھا۔
انڈین ایئر فورس نے اس حادثے کی وجوہات جاننے کے لیے تحقیقات کا اعلان کیا ہے۔
فضائیہ کی جانب سے ایکس پر جاری کیے گئے بیان میں حادثے میں ہلاک ہونے والے پائلٹ کے اہلخانہ سے ہمدردی کا اظہار کیا گیا ہے۔
انڈین ایئر فورس نے 17 سے 21 نومبر تک دبئی میں ہونے والے ایئر شو کے دوران لڑاکا طیارے تیجس نمائش کے لیے رکھے تھے۔
چند روز سے سوشل میڈیا پر یہ قیاس آرائیاں بھی تھیں کہ ایئر شو میں رکھے گئے اس لڑاکا طیارے کے فیول ٹینک سے تیل کا اخراج ہوتا رہا لیکن انڈین حکومت کی جانب سے فیک نیوز کے تدارک کے لیے بنائے گئے اکاونٹ پی آئی بی فیکٹ چیک نے ان کی تردید کی تھی۔
پی آئی بی فیکٹ چیک نے ایکس پر لکھا تھا کہ یہ معمول کا عمل تھا جس میں طیارے کے انوائرمینٹل کنٹرول سسٹم اور آن بورڈ آکسیجن جنریٹنگ سسٹم سے آلودہ پانی کا نکالا گیا۔
End of سب سے زیادہ پڑھی جانے والی
انڈین ایئر فورس کے حوالے کیے جانے کے بعد تیجس کو پیش آنے والا یہ دوسرا حادثہ ہے۔ اس سے قبل مارچ 2024 میں انڈیا کی مغربی ریاست راجستھان میں بھی ایک تیجس طیارہ گر کر تباہ ہوا تھا۔

،تصویر کا ذریعہِIndian Air Force
انڈیا کے لڑاکا تیجس طیاروں کی خصوصیات کیا ہیں؟
تیجس سنسکرت زبان کا لفظ ہے جس کے معنی 'شعلہ' یا 'چمک' ہیں۔ اس طیارے کو سنہ 2016 میں انڈیا کے فضائی بیڑے میں طویل انتظار کے بعد شامل کیا گیا تھا جس کا مقصد فضائیہ کو جدید خطوط پر استوار کرنا تھا۔
'تیجس' انڈیا کا پہلا مکمل طور پر دیسی ساختہ لڑاکا طیارہ ہے جو سنگل انجن ہے اور جس میں لگائے گئے پچاس فیصد سے زیادہ حصے انڈیا میں تیار کیے جاتے ہیں۔
ماہرین کے مطابق اس طیارے میں مقامی سطح پر تیار کیا گیا ریڈار نصب ہے۔ بعض ماہرین کا خیال ہے کہ یہ طیارہ وزن میں ہلکا ہے اور اس کی انجن پاور بھی اچھی ہے۔ نیز یہ کہ یہ ایک کثیر المقاصد لڑاکا طیارہ ہے جو آٹھ سے نو ٹن وزن لے جا سکتا ہے۔
اس کے علاوہ 52 ہزار فٹ کی بلندی پر بھی یہ طیارہ آواز کی رفتار سے 1.6 سے 1.8 گنا تیزی سے سفر کرتا ہے۔
اس سال ستمبر میں انڈین وزارتِ دفاع نے انڈین ایروناٹکس لمیٹڈ کے ساتھ 97 تیجس طیاروں کی خریداری کا معاہدہ کیا تھا، جن کی 2027 میں ترسیل شروع ہونے کی اُمید ہے۔
دفاعی امور کے ماہر اجے شکلا کا کہنا ہے کہ پوری کھیپ کی تیاری تک اس میں دیسی حصوں کی شرح 60 فیصد تک پہنچ سکتی ہے۔
تیجس میں جو نئی ٹیکنالوجی استعمال کی گئی ہے وہ 'ایکٹیو الیکٹرانک سکین ریڈار' یعنی برقی طور پر سکیننگ کرنے والا ریڈار ہے اور یہ 'کریٹیکل آپریشن کی اہلیت' رکھتا ہے۔ اس کا مطلب یہ کہ یہ طیارہ 'ویژوئل رینج' سے دور بھی میزائل کو سکین کر سکتا ہے۔

،تصویر کا ذریعہReuters
دشمن کے ریڈار کو دھوکہ دینے کی صلاحیت
بی بی سی اردو کی خبروں اور فیچرز کو اپنے فون پر حاصل کریں اور سب سے پہلے جانیں پاکستان اور دنیا بھر سے ان کہانیوں کے بارے میں جو آپ کے لیے معنی رکھتی ہیں
سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں
مواد پر جائیں
تیجس میں الیکٹرانک وار فیئر 'سویٹ' اور 'ایئر ٹو ایئر ری فیولنگ' کا بھی انتظام ہے۔
یہ طیارہ دور دراز سے دشمن کے طیارے کو نشانہ بنا سکتا ہے اور اس میں دشمن کے ریڈار کو دھوکہ دینے کی بھی صلاحیت موجود ہے۔ یہ طیارہ زیادہ وزن کے ساتھ سخوئی طیارے جتنے ہتھیار اور میزائل لے کر پرواز کر سکتا ہے۔
شکلا کے مطابق تیجس مارک 1 اے لڑاکا طیارے کی لاگت قریب 550 کروڑ روپے ہے، جو سخوئی 30 ایم کے آئی لڑاکا طیارے سے 120 کروڑ روپے زیادہ ہے۔
انڈین فضائیہ کے ریٹائرڈ ونگ کمانڈر کیٹی سبسٹین کہتے ہیں کہ تیجس مارک 1 اے سخوئی 30 ایم کے آئی لڑاکا طیارے سے زیادہ مہنگا ہے کیونکہ اسرائیل میں تیار کردہ ریڈار جیسے بہت سارے جدید آلات اس میں شامل کیے گئے ہیں۔
'اس طیارے میں مقامی سطح پر تیار کیا گیا ریڈار نصب کیا گیا ہے۔ یہ طیارہ ہلکا ہے اور اس کی انجن پاور بہتر ہے۔ یہ ایک کثیر المقاصد لڑاکا طیارہ ہے۔'
ایئر مارشل باربورا کا خیال ہے کہ انڈیا میں بنایا گیا تیجس ایک اچھا طیارہ ہے لیکن رینج، قوت برداشت اور ہتھیار لے جانے کی صلاحیت کے لحاظ سے یہ سخوئی یا رفال طیاروں سے کم صلاحیت رکھتا ہے۔
خیال رہے کہ تیجس طیاروں کا منصوبہ اپنے ڈیزائن اور دیگر چیلنجز کی وجہ سے انڈیا میں کافی تاخیر کا شکار رہا تھا اور ماضی میں تیجس طیاروں کو اپنے ڈیزائن اور ٹیکنالوجی کی وجہ سے مشکلات کا بھی سامنا رہا ہے اور ایک مرتبہ انڈین بحریہ نے ان طیاروں کو اپنے بیڑے میں شامل کرنے کی درخواست کو یہ کہہ کر مسترد کر دیا تھا کہ یہ بہت زیادہ بھاری ہیں۔
تاہم بعدازاں اس کے ڈیزائن اور ٹیکنالوجی میں تبدیلیاں کی گئیں اور انھیں ہلکا بنایا گیا۔
مگ 21 لڑاکا طیاروں کے حادثات اور ’اُڑتے تابوت‘ کا خطاب
واضح رہے کہ یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ جب انڈین فضائیہ کے کسی لڑاکا طیارے کو حادثہ پیش آیا ہو۔ اس سے قبل انڈین ایئر فورس کے مگ 21 طیاروں کو پیش آنے والے حادثات کی وجہ سے ’اُڑتے تابوت‘ کا بھی خطاب دیا جاتا تھا۔
مگ 21 انڈین فضائیہ میں پہلی بار 1963 میں شامل کیے گئے تھے۔ اس وقت سے مختلف مرحلوں میں انڈیا نے الگ الگ طرح کے 700 سے زیادہ مگ 21 جنگی جہاز خریدے۔
ان جہازوں کو 2022 میں ریٹائر کرنے کا منصوبہ تھا لیکن ملک میں تیار کیے گئے تیجس جہاز کی وقت پر ڈیلیوری نہ ہونے کے سبب اسے فضائیہ سے ہٹانے کے منصوبے کو التوا میں رکھا گیا اور آخر کار انھیں رواں برس ستمبر میں ریٹائر کر دیا گیا۔
جب فروری 2019 ونگ کمانڈر ابھینندن کے طیارے کو پاکستان میں گرایا گیا تھا تو وہ مگ 21 ہی اڑا رہے تھے۔ انڈیا کا دعویٰ کیا تھا کہ ابھینندن نے 'پاکستانی فضائیہ کے ایف 16 طیارے کو مار گرایا تھا' جس پر بعد میں انھیں ملک کا تیسرا سب سے بڑا فوجی اعزاز 'ویر چکرا' دیا گیا تھا۔
انڈین میڈیا رپورٹس کے مطابق 1972 سے اب تک مگ 21 تقریباً 400 حادثات میں ملوث رہا ہے۔
2012 میں انڈیا کے اس وقت کے وزیر دفاع اے کے انتونی نے پارلیمنٹ میں بیان دیا تھا کہ روس سے خریدے گئے 872 مگ 21 طیاروں میں سے نصف گر کر تباہ ہو چکے ہیں۔
لیکن بعض انڈین دفاعی ماہرین کا خیال ہے کہ 'مگ 21 نے انڈیا کے لیے ڈھال کا کام کیا۔ یہ ایک شاندار مشین تھی جس نے ہر بار اپنی صلاحیتوں کو ثابت کیا۔ میں نے اس طیارے کو ہر مرحلے میں دیکھا - ایک ہتھیار کے نظام کے طور پر تیار ہوتا ہوا مگ 21 دنیا کے بہترین پائلٹوں کے ہاتھوں میں اور بھی زیادہ خطرناک ہوتا گیا۔'










