قتل ہونے والی چھوٹی بہن کی مٹھی میں موجود بال، جن کی مدد سے پولیس مبینہ قاتل بڑی بہن تک پہنچی

تصویر

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن13 سالہ لڑکی کی لاش ملنے کے بعد مقامی افراد نے مظاہرہ کیا اور مطالبہ کیا کہ مبینہ اغوا کاروں کو فی الفور گرفتار کیا جائے (فائل فوٹو)
    • مصنف, ریاض مسرور
    • عہدہ, بی بی سی اُردو، سرینگر

نصرت اور انشا (فرضی نام) کے والدین جب گذشتہ اتوار انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے علاقے گاندربل سے ڈاکٹر کو چیک کروانے کے لیے نکلے تو اُن کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ چند گھنٹوں بعد انھیں گھر واپسی پر اپنی 13 سالہ چھوٹی بیٹی (انشا) کی لاش دیکھنے کو ملے گی۔

والدین کے گھر سے چلے جانے کے بعد، 22 سالہ نصرت اپنی چھوٹی بہن انشا کے ہمراہ گھر سے تھوڑی دوُر واقع اپنے باغ میں ایک روز قبل کھو جانے والی گھڑی ڈھونڈنے کے لیے نکلی۔

مقامی پولیس کے مطابق تھوڑی دیر کی تلاش کے بعد دونوں بہنوں کو وہ گھڑی مل گئی مگر کچھ ہی دیر بعد بڑی بہن نصرت گھبراہٹ میں گھر پہنچی اور وہاں موجود اپنے رشتہ داروں کو بتایا کہ تین نامعلوم کار سواروں نے چھوٹی انشا کو اغوا کرنے کی کوشش کی۔

نصرت نے اہلخانہ کو یہ بھی بتایا کہ اس دوران وہ بھاگ نکلنے میں کامیاب ہو گئیں مگر مبینہ اغوا کار انشا کو اپنے ساتھ لے گئے۔

نصرت کی جانب سے بتائی گئی اس کہانی پر یقین کرتے ہوئے مقامی پولیس اور گاؤں والوں نے ’اغوا‘ ہو جانے والی بہن کی تلاش شروع کر دی اور تھوڑی ہی دیر میں انھیں قریبی باغ سے انشا کی لاش مل گئی۔

ظاہری طور پر انشا کے سر پر گہری چوٹ تھی اور وہ اپنے ہی خون میں لت پت گھاس کے ایک ڈھیر کے قریب پڑی تھی۔

13 سالہ لڑکی کی لاش ملنے کے بعد مقامی افراد نے مظاہرہ بھی کیا اور پولیس سے مطالبہ کیا کہ مبینہ اغواکاروں اور بچی کو قتل کرنے والوں کو فی الفور گرفتار کیا جائے۔

پوسٹ مارٹم نے انشا کی ’موت کا معمہ حل‘ کر دیا

تصویر

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشنبڑی بہن کی جانب سے بتائی گئی تمام تر تفصیلات تفتیش کے نتیجے میں جھوٹ ثابت ہوئیں (فائل فوٹو)

اپنی 13 سالہ بچی کی موت پر غمزدہ والدین کو شاید ابھی یہ نہیں پتا تھا کہ اس معاملے میں ہونے والی تفتیش اُن پر غم کا ایک اور پہاڑ توڑ دے گی۔

مواد پر جائیں
بی بی سی اردو اب واٹس ایپ پر

بی بی سی اردو کی خبروں اور فیچرز کو اپنے فون پر حاصل کریں اور سب سے پہلے جانیں پاکستان اور دنیا بھر سے ان کہانیوں کے بارے میں جو آپ کے لیے معنی رکھتی ہیں

سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں

مواد پر جائیں

اس واقعے کے فوراً بعد کشمیر کی حکومت نے گاندربل پولیس کے سربراہ محمد خلیل پوسوال کی سربراہی میں ایک خصوصی تفتیشی ٹیم تشکیل دی اور انھیں مبینہ قاتلوں کی گرفتاری کا ٹاسک دیا گیا۔

تفتیشی ٹیم نے اپنی تحقیقات کا آغاز آس پاس کے علاقے میں نصب سی سی ٹی وی فوٹیج کو حاصل کرنے سے کیا تاکہ مبینہ اغواکاروں کی بابت کچھ تفصیل معلوم ہو سکے۔

بعدازاں ایک پریس کانفرنس میں میڈیا کے نمائندوں کو اس کیس کی تفصیلات بتاتے ہوئے، تفتیشی ٹیم کے سربراہ ایس ایس پی محمد خلیل پوسوال نے بتایا کہ وہ دو روز تک موصول ہونے والی سی سی ٹی وی فوٹیج کا معائنہ کرتے رہے لیکن انھیں اس فوٹیج میں نہ تو کوئی مشکوک گاڑی نظر آئی اور نہ ہی تین مبینہ اغوا کار، جیسا کہ بڑی بہن نے بتایا تھا۔

انھوں نے یہ بھی بتایا کہ بڑی بہن کی طرف سے پولیس کو مہیا کی گئی تفصیلات میں بھی تضاد نظر آیا۔

اُنھوں نے دعویٰ کیا کہ ’ہم نے لاش کا پوسٹ مارٹم اور فرانزک جانچ کروائی تو قتل ہونے والی بچی انشا کے ہاتھ سے کچھ بال ملے، جو لمبے تھے۔ پھر ہم نے اس کی بہن نصرت کی بھی میڈیکل جانچ کروائی اور اس کے بالوں کا نمونہ بھی لیا گیا۔ آگے چل کر معلوم ہوا کہ مقتولہ کے ہاتھ میں موجود بال اُس کی بڑی بہن ہی کے تھے۔‘

انھوں نے کہا کہ سامنے آنے والے شواہد کی بنیاد پر جب نصرت سے تفتیش کی گئی تو ابتدا میں اس نے اِدھر اُدھر کی باتیں کیں لیکن مسلسل انٹروگیشن کے بعد اس نے اعتراف کیا کہ اس کا باغ میں چھوٹی بہن کے ساتھ کسی بات پر جھگڑا ہو گیا تھا، لڑائی بڑھی تو اس نے لکڑی کے بھاری ڈنڈے سے چھوٹی بہن کے سر پر وار کر دیا۔

پوسٹ مارٹم کے مطابق انشا کی موت سر پر لگنے والی چوٹ اور زیادہ خون بہہ جانے کے باعث ہوئی تھی۔

ایس ایس پی پسوال کے مطابق ملزمہ بہن نے پولیس کو یہ بھی بتایا کہ چھوٹی بہن کو خون میں لت پت اور بے ہوش حالت میں دیکھ کر وہ جائے وقوعہ سے بھاگ گئی اور اپنے ایک کزن کے ہاں جا کر کپڑے بدلے اور گھر پہنچ کر لوگوں کو اغوا کی جھوٹی کہانی بتائی۔

پولیس کے مطابق انھوں نے وہ کپڑے بھی برآمد کیے ہیں اور اُن پر لگے خون کے دھبوں کی جانچ کے بعد یہ معلوم ہوا کہ خون چھوٹی مقتولہ بہن ہی کا ہے۔

ایس ایس پی پسوال کے مطابق ملزمہ کے اقرار جرم کے بعد اسے باقاعدہ طور پر گرفتار کر کے اُس کے خلاف قتل کا مقدمہ درج کیا گیا۔

مقامی پولیس کا کہنا ہے کہ اس معاملے میں مزید گرفتاریوں کی توقع نہیں کیونکہ ملزمہ کے مطابق یہ اس کا اپنا فعل تھا اور اس نے اقبال جرم بھی کر لیا تاہم ایس ایس پی پوسوال کا کہنا ہے کہ نصرت کو عدالت میں پیش کرنے سے واقعے کے تمام پہلووٴں کا تجزیہ کیا جائے گا۔

یاد رہے کہ یہ واقعہ سامنے آنے کے بعد سوشل میڈیا پر یہ افواہیں بھی اُڑیں تھیں کہ یہ قتل کسی افیئر کا نتیجہ ہوسکتا ہے۔ جس پر ایس ایس پی گاندربل خلیل پوسوال نے کہا کہ ’فی الحال اغوا کی کہانی من گھڑت ہے اور تفتیش کے نتیجے میں بھی کسی افیئر کا پہلو خارج از امکان ہوتا ہے۔‘

نصرت اور انشا کے والدین اب گھر سے باہر نہیں نکلتے اور نہ کسی سے بات کرتے ہیں۔

اُن کے ایک رشتہ دار نے بی بی سی کو فون پر بتایا کہ ’انشا کے قتل کے واقعے کے فوری بعد پورے کشمیر میں ہمارے لیے ہمدردی تھی اور قاتلوں کو گرفتار کرنے کی بات کی جا رہی تھی لیکن اب لوگ حیرت میں ہیں کہ بچوں کے درمیان اس حد تک بھی دشمنی ہو سکتی ہے۔ خود اُن بچیوں کے والدین بھی اس احساس میں گھٹ رہے ہیں۔‘

علم نفسیات کی محقق تابندہ انجم کہتی ہیں کہ اس مخصوص معاملے میں ہم ابھی کچھ نہیں کہہ سکتے ہیں کیونکہ پولیس نے ابھی یہ نہیں بتایا کہ بہنوں میں اصل میں کس بات پر جھگڑا ہوا تھا تاہم اُن کے مطابق بچوں کے درمیان والدین کے وسائل پر حقوق جتانے کے لئے اکثر تناؤ رہتا ہے اور والدین اکثر معاملات میں اس تناؤ کو دشمنی تک پہنچنے نہیں دیتے۔

’کبھی یہ مقابلہ آرائی قتل تک پہنچ جاتی ہے۔ اس کو ہم سِبلِسائڈ (برادرکشی) کہتے ہیں لیکن اس کی بنیادی وجہ بچوں میں امتیاز کرنا ہے۔‘