ہمارا جو بگاڑ سکتے ہو بگاڑ کے دکھاؤ

،تصویر کا ذریعہSocial Media
- مصنف, وسعت اللہ خان
- عہدہ, صحافی و تجزیہ کار
لگ بھگ ساڑھے پانچ برس قبل 17 جنوری 2020 کو انگریزی روزنامہ ’ڈان‘ میں یہ خبر شائع ہوئی کہ کوئٹہ کی ایک سیشن عدالت نے ایک کمسن بچی ماریہ کے اغوا کے الزام میں سینیٹر سرفراز بگٹی کی عبوری ضمانت منسوخ کرتے ہوئے گرفتاری کا حکم دیا ہے اور یہ کہ درخواست مسترد ہوتے ہی سینیٹر صاحب غائب ہو گئے چنانچہ پولیس گرفتاری کے عدالتی احکامات پر عملدرآمد نہ کر سکی۔
مغوی ماریہ کی نانی نے اپنی درخواست میں لکھا تھا کہ فیملی کورٹ سے بچی کی کسٹڈی انھیں ملنے کے باوجود بچی کے باپ نے اسے اغوا کر کے سینیٹر سرفراز بگٹی کی رہائشگاہ پر رکھا ہوا ہے۔ سینیٹر بگٹی نے یہ الزام مسترد کرتے ہوئے اسے ایک گھریلو جھگڑا قرار دیا جسے خوامخواہ ایک سیاسی ایشو بنا کر اچھالا جا رہا ہے۔
بالاخر عدالت نے انھیں بے گناہ قرار دیا اور پھر اوپر والے نے اُن کا ہاتھ پکڑ لیا۔ یوں وہ ترقی کرتے کرتے صوبائی و وفاقی وزیرِ داخلہ بننے کے بعد اِس وقت بلوچستان کے وزیرِ اعلیٰ ہیں۔
وزیرِ اعلیٰ کی موجودہ کابینہ میں پبلک ہیلتھ انجینیئرنگ کی وزارت سردار عبدالرحمان کھیتران کے پاس ہے اور اخباری اطلاعات کے مطابق فروری 2023 میں بارکھان میں اُن کے گھر کے قریب ایک کنوئیں سے گولیوں سے چھلنی تین مسخ شدہ لاشیں ملی تھیں۔
دو لاشیں مردوں کی اور ایک عورت کی بتائی گئی۔ یہ خبر سامنے آنے کے بعد یہاں سے وہاں تک ہنگامہ مچ گیا۔ جبکہ سردار کھیتران کے ایک سابق ملازم خان محمد مری نے الزام لگایا کہ اس کی بیوی، دو بیٹے اور ایک بیٹی سنہ 2019 سے سردار کی نجی جیل میں ہیں۔
سردار کھیتران کو حراست میں لے لیا گیا، گواہوں نے ابتدائی بیانات بدل لیے اور دو ہفتے بعد عدم ثبوت کی بنیاد پر پانچ لاکھ روپے کے عوض اُن کی ضمانت ہو گئی۔ خان محمد مری کا یہ دعوی غلط نکلا کہ اس کی بیوی اور دو بیٹوں کو سردار کے حکم پر مار دیا گیا، مگر پھر کنویں سے ملنے والی لاشیں کس کی تھیں؟ یہ عقدہ ہی رہا۔
وزیرِ اعلیٰ بگٹی کی کابینہ میں صادق عمرانی وزیرِ مواصلات ہیں۔ اُن کا تعلق ضلع جعفر آباد سے ہے۔ سنہ 2008 میں وہ صوبائی وزیرِ ہاؤسنگ تھے اور اُسی سال 13 جولائی کو جعفر آباد کی تحصیل اوستا محمد کے گاؤں بابا کوٹ سے خبر آئی کہ پسند کی شادی کی ضد پر تین لڑکیوں اور اُن کا ساتھ دینے والی دو معمر خواتین کو اغوا اور فائرنگ سے شدید زخمی کرنے کے بعد ویرانے میں زندہ دفن کر دیا گیا۔
اس واردات میں صوبائی نمبر پلیٹ کی سرکاری گاڑی بھی استعمال ہوئی۔ وزیر صادق عمرانی نے وضاحت کی کہ پانچ نہیں دو عورتیں مری ہیں اور یہ کہ اس واردات میں اُن کے بھائی کے ملوث ہونے کا کوئی ثبوت نہیں، البتہ مرنے والیوں کا تعلق اُن کے قبیلے سے ضرور ہے۔
End of سب سے زیادہ پڑھی جانے والی

،تصویر کا ذریعہAPP
بی بی سی اردو کی خبروں اور فیچرز کو اپنے فون پر حاصل کریں اور سب سے پہلے جانیں پاکستان اور دنیا بھر سے ان کہانیوں کے بارے میں جو آپ کے لیے معنی رکھتی ہیں
سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں
مواد پر جائیں
13 جولائی کے واقعہ کے مبینہ ملزموں کی گرفتاری ڈیڑھ ماہ بعد ہو سکی۔ حالانکہ چیف جسٹس بلوچستان ہائی کورٹ نے تیسرے دن ہی اس واقعے کا نوٹس لے لیا تھا۔ اس واقعہ کا سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے بھی ازخود نوٹس لے کر اپنی سربراہی میں تین رکنی بنچ بنایا۔
پولیس کو ایک گڑھے سے دو خواتین کی بے کفن لاشیں ملیں۔ مگر لڑکیاں کہاں گئیں؟ زندہ ہیں یا مر گئیں؟ جسٹس افتخار چوہدری نے پولیس رپورٹ مسترد کر دی، کچھ عرصے پیشیاں پڑتی رہیں اور اس کے بعد کیا ہوا، خدا معلوم۔
سینیٹ میں بھی یہ واقعہ گرما گرم بحث کا ایندھن بنا۔سینیٹر اسرار اللہ زہری نے ببانگِ دہل کہا کہ وہ غیرت کے معاملے میں بلوچ روایات کا بھرپور دفاع کرتے رہیں گے۔
کم و بیش ایسا ہی منظر سینیٹ میں مارچ 1999 میں بھی نظر آیا جب صوبہ خیبر پختونخوا کے ایک معروف صنعتکار حاجی غلام سرور کی صاحبزادی سمیعہ کو لاہور میں انسانی حقوق کی وکیل عاصمہ جہانگیر اور حنا جیلانی کے دفتر میں دن دہاڑے قتل کر دیا گیا۔
سمیعہ دو بچوں کی ماں تھیں اور گھریلو تشدد کے سبب اپنے شوہر سے طلاق لے کر کہیں اور گھر بسانا چاہتی تھیں۔ والدین نے چار برس اس شرط پر گھر میں رکھا کہ وہ بھلے علیحدہ رہے، پڑھے لکھے، مگر طلاق کی بات زبان پر نہ لائے، ہمارے ہاں یہ عیب سمجھا جاتا ہے۔
سمیعہ بغیر بتائے لاہور پہنچ گئیں اور عاصمہ جہانگیر کے شیلٹر ہوم ’دستک‘ میں پناہ لے لی۔ سمیعہ کی والدہ جو خود بھی ایک پریکٹسنگ ڈاکٹر تھیں، وہ سمیعہ سے مصالحت کی بات چیت کے بہانے کرائے کے قاتل کو اپنا ڈرائیور بتا کر دفتر پہنچیں اور اس نے سمیعہ کو گولی مار دی۔ قاتل ایک گارڈ کی جوابی فائرنگ کا نشانہ بن گیا جبکہ سمیعہ کی والدہ فرار ہو گئیں۔
دو برس یہ مقدمہ زیرِ سماعت رہا اور پھر ایک دن یہ اطلاع ملی کہ مقتولہ سمیعہ کے والد نے بطور ولی اپنی بیوی کو معاف کر دیا ہے اور مقتول بننے والے قاتل کے خاندان نے بھی صبر کر لیا۔
اس واردات کے بعد رکنِ سینیٹ اقبال حیدر نے غیرت کے نام پر قتل کے قانون میں مزید سختی کا بل پیش کیا۔ سوائے 19 سینیٹرز کسی نے ساتھ نہ دیا۔ مذہبی سیاسی جماعتوں کے نمائندوں کی مخالفت کے ساتھ ساتھ عوامی نیشنل پارٹی کے سینیٹر اور معروف شاعر اجمل خٹک نے بھی بل کی مخالفت کرتے ہوئے اسے غیرتی روایات پر حملہ قرار دیا۔
اگست 2023 میں ایک دس سالہ بچی فاطمہ کی ایک وڈیو وائرل ہوئی جس میں وہ ایک کمرے کے فرش پر شدید زخمی حالت میں پڑی آخری سانسیں لے رہی تھیں۔حسبِ روایت شور و غوغا اٹھا۔ پولیس نے بادلِ نخواستہ خیرپور کے سیاسی و روحانی شہرت یافتہ پیر آف رانی پور خانوادے کے پیر اسد شاہ جیلانی، اُن کی اہلیہ، سسر اور چند ملازموں کو گھریلو خادمہ فاطمہ پر تشدد اور ہلاکت کی تفتیش کے لیے حراست میں لے لیا۔
لگ بھگ ڈیڑھ برس بعد اس سال فروری میں خبر آئی کہ بالائے عدالت سمجھوتہ ہو گیا ہے اور فاطمہ کے گھر والوں نے پیر صاحب اور ان کے اہلِخانہ کو اللہ کے نام پر معاف کر دیا ہے۔
اس خونی دیگ کے چند چاول دکھانے کا مقصد یہ ہے کہ ہمیں اندازہ ہو کہ ظلم کے برگد کی جڑیں کہاں کہاں تک پھیلی ہوئی ہیں۔
خواندہ و ناخواندہ، غریب و امیر، قانون ساز و قانون نافذ کرنے والے، وکلا، منصف، عظیم المرتبت روحانی و دنیاوی گھرانے، متوسط و غیر متوسط طبقات، ہر خبر پر اگلی خبر چڑھانے والا جلد باز میڈیا، عورت کے بارے میں خاندانی، برادریانہ و قبائلی رویے، سب کے سب اپنی اپنی بساط، پہنچ اور تعصب کی بالٹی سے اس منحوس درخت کی آبیاری میں حصہ دار ہیں۔
اسلامی جمہوریہ کے ایک صدرِ مملکت نے کہا کئی عورتیں بیرونِ ملک شہریت لینے کے لالچ میں ریپ کا ماحول پیدا کرتی ہیں، ایک منتخب وزیرِ اعظم نے کہا عورتیں بھڑکیلے کپڑے پہنیں گی تو مرد خود کو کیسے کنٹرول کر پائیں گے۔
بالا ترین سطح پر اس رویے سے شہہ پا کر نچلی سطح تک کسی ایس ایچ او کو یہ سوچنے سے کون روک سکتا ہے کہ شکایت لے کر آنے والی اکثر عورتوں کا اپنا کیریکٹر ٹھیک نہیں ہوتا۔ اس کے بعد کٹہرے میں کھڑی عورت کو مخالف وکیل کے رکیک سوالوں سے کون بچا سکتا ہے؟
جہاں شرعی و سیکولر عدالتی نظام اور خالص مردانہ جرگے کی کھچڑی پکی ہوئی ہو، عوامی فلاح و بہبود کے دعویدار سیاست بازوں کے کئی کئی مکھوٹے ہوں، وہاں سخت ترین قوانین ردی میں اضافے کے علاوہ اور کس کام آ سکتے ہیں؟
معلوم ہے ایسے مقدمات میں مجرموں کو سزا ملنے کا تناسب کیا ہے؟ 0.5 فیصد (نصف فیصد)۔
اب تو جس بچے، بچی یا عورت کی وڈیو وائرل نہ ہو اس کی موت تک چند گھنٹے کے لیے بھی ضمیر پر رجسٹر نہیں ہوتی۔ اور یہ وڈیوز بھی ایک طرح سے طاقت کا اظہار ہی تو ہیں کہ جس نے ہمارا جو بگاڑنا ہے بگاڑ کے دکھائے۔ گھوم پھر کے ریاست ہو یا فرد کام تو ہم سے ہی پڑے گا نا۔













