تقسیم کے 70 برس: نہنگ سکھوں کی زیرِ حفاظت ’گرو کی مسجد‘
- مصنف, فیصل محمد علی
- عہدہ, بی بی سی ہندی، ہرگوبند پورہ
محرابوں پر لکھی آیات مدھم ہو گئی ہیں، ٹائل پر قلم كاری سے بنے بیل بوٹوں کے رنگ جگہ جگہ سے اڑ گئے ہیں، مگر آس پاس پلستر اور بنا پلستر والے مکانات اور درختوں کے درمیان سے نظر آتے گنبد اس کے مسجد ہونے کی گواہی دیتے ہیں۔
انڈین پنجاب کے علاقے ہرگوبندپور میں موجود اس مسجد کا تقسیم کے وقت پھیلی وحشت کے باوجود بال بھی بیکا نہ ہوا اور اس کی حفاظت نہنگ سکھ نصف صدی سے زیادہ عرصے سے کر رہے ہیں۔
1940 کی دہائی کے آخری برسوں میں جب ہندو، مسلمان، سکھ مذہب کے نام پر ایک دوسرے کے دشمن بن بیٹھے تھے، جب مندر، گردوارے اور مسجدیں ڈھائی جا رہی تھیں، نہنگ سکھوں کے سردار نے کہا، ’گرو کی بنائی مسیت کو اگر کوئی نقصان پہنچائے گا تو ہم اسے قتل کر دیں گے'۔
وہ دن اور آج کا دن یہ مسجد ان کی نگرانی میں ہے۔

مسجد کے احاطے میں نیلے کپڑے میں بندھا 50 فٹ لمبا ڈنڈا ایستادہ ہے جس پر دودھاری تلوار لٹک رہی ہے، اس بات کا اعلان ہے کہ مسجد کی حفاظت اب نہنگوں کے ہاتھ میں ہے۔
سکھوں کے چھٹے گرو ہرگوبند سنگھ نے جب 17 ویں صدی میں ہرگوبندپور بسایا تو شہر کے مسلمانوں کے لیے یہ مسجد تعمیر کروائی تھی۔
End of سب سے زیادہ پڑھی جانے والی
وہ محض 11 سال کی عمر میں اس وقت سکھوں کے چھٹے گرو بنائے گئے تھے جب ان کے والد اور سکھوں کے پانچویں گرو ارجن دیو کو مغل بادشاہ جہانگیر کے حکم پر قتل کر دیا گیا تھا۔
گذشتہ 35 برس سے مسجد کی دیکھ بھال کرنے والے بابا بلونت سنگھ کہتے ہیں کہ 'یہاں کا چودھری گرو صاحب کو بہت برا بھلا کہتا تھا۔ ایسا کتابوں میں لکھا ہے۔ جنگ ہوئی جس میں وہ ہار گیا اور مارا گیا۔ گرو نے کہا یہاں مندر نہیں بنے گا، گردوارہ نہیں بنے گا اور اس جگہ پر مسجد کی تعمیر کروائی۔'

بابا بلونت سنگھ کے ساتھ موجود رجوت سنگھ کہتے ہیں، 'گرو ہرگوبند ظلم کے خلاف لڑے. مذہب کے لیے نہیں۔ اس لیے انھوں نے لوگوں کے لیے یہ مسیت بنوائی۔'
بلونت سنگھ مسجد کے احاطے میں تعمیر شدہ نئے حصے کے ایک کمرے میں رہتے ہیں۔ ان کا کل اثاثہ ایک پرانا ریفریجریٹر، غلّے کی ایک بوری اور کچھ برتن ہیں۔ ان کا زیادہ تر وقت گرنتھ صاحب پڑھنے، 'مسیت کی خدمت' اور مسجد دیکھنے کے لیے آنے والوں کی نگرانی میں صرف ہوتا ہے۔
گرو کی مسیت (مسجد) دیکھنے کے لیے آنے والوں کا سلسلہ گذشتہ کچھ سالوں سے ہی شروع ہوا ہے۔

سنہ 2000 تک تو ہرگوبندپور میں ہی پیدا ہونے والے اور یہیں پلنے بڑھنے والے پرکاش نندا جیسے لوگوں تک کو نہیں معلوم تھا کہ وہاں کوئی مسجد بھی ہے اور وہ بھی اتنی تاریخی!
پرکاش نندا کہتے ہیں کہ جب یونیسکو نے اس خستہ حال مسجد کی بحالی کا کام شروع کروایا تب جا کر شہر والوں کو علم ہوا کہ وہاں کسی سکھ گرو کی بنائی ہوئی مسجد بھی موجود ہے۔
اگرچہ مسجد کی بحالی کے کام کے بعد کچھ شہری بھی اس کی دیکھ بھال کے لیے متوجہ ہوئے ہیں، لیکن حالات پھر بھی بہت بہتر نہیں ہوئے ہیں۔

بابا بلونت کہتے ہیں کہ ' کم از کم مسیت میں پانی کا نلکا تو لگ جائے ورنہ چھوٹے چھوٹے کاموں میں بھی تکلیف اٹھانی پڑتی ہے۔'
گرو کی یہ مسجد ہندوستان کی گنگاجمنی تہذیب کا اہم حصہ ہے اور آج کل کے دور میں اس کی بحالی کے ساتھ ساتھ اس کی حفاظت بھی ضروری ہوتی جا رہی ہے۔









