افغان شہریوں پر بیرون ملک عسکری کارروائیوں میں حصہ لینے کی ممانعت: افغان علما کی قرارداد پاکستان، افغانستان کشیدگی میں کیا معنی رکھتی ہے؟

    • مصنف, حفیظ اللہ معروف، سارہ حسن
    • عہدہ, بی بی سی

افغانستان میں طالبان کی عبوری حکومت کی قیادت میں ہونے والے علما کرام کے اجلاس نے ایک قرارداد منظور کی ہے جس کے تحت ’کسی افغان شہری‘ کو بیرونِ ملک عسکری کارروائیوں میں حصہ لینے کی اجازت نہیں ہو گی۔

یہ اجلاس بدھ کو دارالحکومت کابل میں منعقد ہوا جس میں ملک بھر سے درجنوں علما نے شرکت کی۔

اس اجلاس میں طالبان حکومت کی سپریم کورٹ کے سربراہ مولوی عبدالحکیم حقانی، اخلاقی پولیس کے سربراہ وزیر محمد خالد حنفی اور اعلیٰ تعلیم کے وزیر ندا محمد ندیم سمیت دیگر اعلیٰ طالبان حکام نے بھی شرکت کی۔

اس اجلاس کے اختتام پر دو صفحات اور پانچ نکات پر مشتمل ایک قرارداد کی متفقہ منظوری بھی دی گئی۔

بی بی سی نے اس قرارداد کی کاپی حاصل کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ’افغان طالبان کے سپریم لیڈر (ہبت اللہ اخونزادہ) نے کسی بھی افغان شہری کو عسکری سرگرمیوں کے لیے بیرون ملک جانے کی اجازت نہیں دی ہے اور اگر کوئی اس کی خلاف ورزی کرتا ہے تو یہ جائز نہیں ہے۔‘

اس قرارداد میں طالبان کی عبوری حکومت سے بھی مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ بیرون ملک جا کر لڑنے والے افغان شہریوں کو روکیں۔

یہ قرارداد ایک ایسے وقت پر سامنے آئی ہے جب پاکستان کے اصرار کے باوجود افغان طالبان ٹی ٹی پی کی کارروائیاں نہیں روک سکے ہیں اور اسی بنیاد پر دونوں ملکوں مابین سرحدی جھڑپیں بھی ہوئی ہیں۔

دوحہ، استنبول اور ریاض میں طالبان حکومت اور پاکستانی وفد کے درمیان مذاکرات کے کئی ادوار میں بھی تحریک طالبان پاکستان کے مسئلے پر اتفاقِ رائے قائم نہیں ہو سکا جس کی وجہ سے تعلقات میں بہت تناؤ ہے۔

پاکستان چاہتا ہے کہ طالبان حکومت ٹی پی پی کے خلاف اقدامات کرے لیکن افغان طالبان کا کہنا ہے کہ ٹی پی پی پاکستان کا اندرونی معاملہ ہے۔ پاکستان یہ مطالبہ بھی کر چکا ہے کہ افغان طالبان ٹی ٹی پی کے حوالے سے فتوی جاری کرے۔

قرارداد میں کیا کہا گیا؟

بی بی سی کو ملنے والی قرارداد کی کاپی میں مجموعی طور پر پانچ نکات شامل ہیں۔

اس کے دوسری شق میں کہا گیا ہے کہ ’افغانستان پر حملے کرنے والی بیرونی جارحیت کے خلاف لڑنا ایک لازمی فریضہ اور مقدس جہاد سمجھا جائے گا۔‘

اس میں مزید کہا گیا ہے کہ ’اگر کوئی باہر سے افغانستان پر حملہ کرتا ہے یا مسلمانوں کے تقدس کو پامال کرتا ہے تو تمام افغانوں پر لازم ہے کہ وہ اپنے نظام، سرزمین اور اقدار کا دفاع کریں اور اس دفاع کو مقدس جہاد کہا جائے گا۔‘

جبکہ اس کا ایک اور اہم نکتہ افغان شہریوں کے بیرون ملک جا کر عسکری کاررائیوں میں حصہ لینے سے متعلق ہے۔

قراردار میں کہا گیا ہے کہ ’افغان طالبان کے سپریم لیڈر (ہبت اللہ اخونزادہ) نے کسی بھی افغان شہری کو عسکری سرگرمیوں کے لیے بیرون ملک جانے کی اجازت نہیں دی ہے اور اگر کوئی اس کی خلاف ورزی کرتا ہے تو یہ جائز نہیں ہے۔‘

اس قرارداد میں طالبان کی عبوری حکومت سے بھی مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ بیرون ملک جا کر لڑنے والے افغان شہریوں کو روکیں۔

علما کے اس اجلاس کے منتظمین کا کہنا ہے کہ اس اجلاس میں افغانستان کے تمام صوبوں کی علما کونسل کے کم از کم تین اراکین کو مدعو کیا گیا تھا۔ یاد رہے کہ افغانستان کے صوبوں میں علما کونسل کے اراکین کا انتخاب افغان طالبان کے امیر مولوی ہیبت اللہ اخوندزادہ خود کرتے ہیں۔

بعض ذرائع کے مطابق اس اجلاس میں شریک مذہبی سکالرز میں طالبان حکومت کی وزارت امر بالمعروف، وزارت تعلیم، وزارت حج و اوقاف اور سپریم کورٹ کے کچھ مذہبی سکالرز بھی شامل تھے۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ یہ واضح نہیں ہے کہ علما کی اس قرارداد پر طالبان عبوری حکومت کس حد تک عمل کرے گی ، لیکن عموماً افغان طالبان اس طرح کے اجلاس اور احکامات کے ذریعے افغان شہریوں کو ٹی ٹی پی میں شامل ہونے والوں کو روکنا چاہتے ہیں اور افغانستان پر مستقبل میں کسی بھی بیرونی حملے کی صورت میں عوامی حمایت حاصل کرنا چاہتے ہیں۔

اس قرارداد کا پاکستان، افغانستان کشیدگی میں کیا مطلب ہو سکتا ہے؟

اس قرارداد کے تحت افغان عوام کو کسی دوسرے ملک میں لڑنے سے روکا گیا ہے، اگرچہ قرارداد میں کسی ملک کا حوالہ نہیں دیا گیا لیکن افغان مبصرین کے خیال میں یہ شق پاکستان کے حوالے سے ہو سکتی ہے۔

یہ قرارداد ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب دہشت گردی کے واقعات کے سبب پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات سرد ہیں اور حالیہ سرحدی جھڑپوں کے بعد گذستہ تقریباً دو ماہ سے دونوں ملکوں کے مابین سرحدی گزرگاہیں مکمل طور پر بند ہیں۔

اس قرارداد میں ٹی ٹی پی یا کسی گروہ کا نام نہیں لیا گیا لیکن افغان شہریوں کو دوسرے ملک جا کر لڑنے سے منع کیا گیا ہے۔

دوسری جانب پاکستان کا الزام ہے کہ ملک میں ہونے والے حالیہ شدت پسندی کے واقعات جیسا کہ اسلام آباد کچہری پر حملے میں بھی افغان شہری ملوث تھے جبکہ بنوں کے کیڈٹ کالج پر ہونے والے حملوں کے تانے بانے بھی افغانستان سے ملتے ہیں۔

ایسے میں کچھ مبصرین اس قرارداد کو مثبت انداز میں دیکھ رہے ہیں۔ اُن کے خیال میں اس قرارداد کے تحت کسی حد تک دہشت گردی کا سدباب کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔

افغان اُمور کے تجزیہ کار طاہر خان کا کہنا ہے کہ پاکستان کے فتوی سے متعلق مطالبے کو دیکھتے ہوئے بظاہر ایسا لگتا ہے کہ اس قرارداد سے کسی حد تک پاکستان کا مطالبہ پورا ہوا ہے لیکن کیا اس قرارداد سے پاکستان میں شدت پسندی کے واقعات میں کمی آئے اس بارے میں ابھی کچھ کہنا قبل از وقت ہو گا۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ سنہ 2023 میں افغانستان کے دارا��تادہ نے فتویٰ جاری کیا اور افغان طالبان کے امیر نے بھی اسں کی توثیق کے حق میں اضافی نوٹ لکھا تھا اور پاکستان کا کہنا ہے کہ اس فتوی کے اجرا سے پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں کمی آئی تھی۔

طاہر خان کے بقول پاکستان میں حالیہ شدت پسندی کے حملوں میں افغان شہریوں کی مبینہ شمولیت کابل کے لیے بھی تشوتش کا باعث ہے کیونکہ وہ افغان طالبان جو اس وقت حکومت کا حصہ نہیں ہیں وہ اپنے نظریات اور دوستی کی بنا پر ٹی ٹی پی میں شامل ہو رہے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ اس قرارداد کے ذریعے افغان عوام کو بھی ایک واضح پیغام دیا گیا ہے، لیکن کسی نہ کسی حد تک یہ ٹی ٹی پی کے لیے بھی ایک پیغام ضرور ہے۔

انھوں نے مزید کہا کہ پاکستان اور افغانستان کے مابین حالیہ کشیدگی کے بعد جو صورتحال پیدا ہوئی، ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا، دو ماہ سے سرحد بند ہے اور افغان طالبان پر بھی وہاں کے تاجروں اور کاروباری افراد کا دباؤ ہے۔

انھوں نے کہا کہ نوجوانوں کے علاوہ افغان طالبان کی سینیئر قیادت سمجھتی ہے پاکستان کے ساتھ تعلقات بہتر ہونے چاہییں۔

دوسری جانب صحافی اور خراسان ڈائری کے مدیر افتخار فردوس کا کہنا ہے کہ افغان علما کی قرارداد کے تین اہم نکات ہے جس میں کوئی ایسی بات نہیں ہے جو افغان طالبان نے پہلے نہ کی ہو۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے افتخار فردوس نے کہا کہ اگرچہ اس قرارداد میں بیرون ملک میں لڑائی میں افغان شہریوں کے شامل نہ ہونے کے ضمن میں کسی گروپ یا تنظم کا نام نہیں لیا گیا، اس لیے مکمل طور پر یہ نہیں کہا جا سکتا کہ پاکستان کو اس سے فائدہ ہو گا۔

افتخار فردوس کے بقول اس قرارداد کے بعد اس بات کا امکان ہے کہ ٹی ٹی پی یا افغانستان میں موجود دیگر گروہوں کے حوالے سے کوئی دوسرا حکم نامہ سامنے آ سکتا ہے۔

انھوں نے کہا کہ تاریخی طور پر یہ دیکھا گیا ہے کہ افغان طالبان نے اپنی سرزمین پر موجود غیر ملکی جنگجو عناصر کو کنٹرول کرنے کے علما کو استعمال کیا ہے اور القاعدہ کے رہنما اسامہ بن لادن کے معاملے میں بھی ایسا ہی ہوا تھا۔

افتخار فردوس افغان علما کی جانب سے جاری اس قرارداد کو استنبول، قطر اور سعودی عرب میں ہونے والے مذاکرات کے تناظر میں دیکھ رہے ہیں، لیکن اُن کا کہنا ہے کہ اس میں واضح طور پر یہ کہا گیا ہے کہ بیرونی جارحیت اور حملوں کو بھرپور جواب دیا جائے گا۔

اُن کے بقول حالیہ چند ماہ پاکستان نے افغانستان کے اندر حملے کیے ہیں اور پاکستان کہتا ہے کہ دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے افغانستان کے اندر حملے کیے جائیں گے تو قرارداد میں موجود اس شق کا اشارہ پاکستان کی جانب ہو سکتا ہے۔

پاکستان کی جانب سے فتویٰ کا مطالبہ کیا تھا؟

پاکستان اور افغانستان کے بیچ سرحدی جھڑپوں کے بعد ہونے والے مذاکرات کے بعد افغانستان کے نائب وزیرِ داخلہ رحمت اللہ نجیب نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ ’پاکستان نے طالبان قیادت سے پاکستان پر حملوں کے خلاف فتویٰ جاری کرنے کا مطالبہ کیا تھا لیکن ہم نے پاکستانی وفد کو بتایا کہ فتویٰ رہنما نہیں بلکہ دارالافتا جاری کرتا ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ تھا کہ فتویٰ کے لیے ’پاکستانی حکومت کو (رسمی طور پر) طالبان حکومت کے دارالافتا سے باضابطہ درخواست کرنی چاہیے۔‘

پاکستان کے وزیرِ مملکت برائے داخلہ طلال چوہدری نے طالبان کے نائب وزیرِ داخلہ کے بیان پر ردِ عمل دیتے ہوئے الزام عائد کیا تھا کہ ’افغان طالبان ٹی ٹی پی کے خلاف صرف اس لیے فتویٰ دینے سے گریز کر رہے ہیں کیونکہ وہ انھیں استعمال کرتے ہیں۔‘

تاہم افغانستان میں طالبان کی عبوری حکومت کے نائب وزیرِ داخلہ رحمت اللہ نجیب یہ واضح کر چکے ہیں کہ پاکستانی حکومت اپنی مرضی کے مطابق فتویٰ لینے کی توقع نہ رکھے۔

انھوں نے کہا تھا کہ ’فتویٰ آپ کی مرضی کے مطابق آنے کی توقع نہ رکھیں، کیونکہ فتوے شرعی حکم کے مطابق جاری ہوتے ہیں اور ہم دارالافتا کو اس بارے میں حکم جاری نہیں کر سکتے۔‘

مبصرین کا کہنا ہے کہ فتویٰ کے ذریعے پاکستان ملک کے اندر حملوں کو مذہبی اور نظریاتی بنیاد پر چیلنج کرنا چاہتا ہے۔

پاکستان کے حکام کا خیال ہے کہ ٹی ٹی پی کے ارکان افغان طالبان کے رہنما مولوی ہیبت اللہ اخونزادہ کی بات سنتے ہیں اور ان کی بیعت کر چکے ہیں، اس لیے وہ فتویٰ جاری کروا کے ان پر قابو پانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

تجزیہ کاروں کے مطابق پاکستانی حکومت کو امید ہے کہ اس طرح کا فتویٰ نہ صرف ٹی ٹی پی کے نظریاتی بنیاد کو متاثر کرے گا بلکہ ان کی لڑائی کو مجرمانہ شورش کا درجہ دے دے گا۔