سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے درمیان پنپتی وہ خاموش رقابت جسے یمن میں پیش آئے حالیہ واقعے نے تازہ کر دیا

    • مصنف, اومنیا ال نگر
    • عہدہ, بی بی سی مانیٹرنگ

متحدہ عرب امارات کے حمایت یافتہ گروپ ’سدرن ٹرانزیشنل کونسل‘ (ایس ٹی سی) نے گذشتہ ہفتے یمن کے جنوب مشرقی علاقے میں اہم شہروں اور تیل کے ذخائر پر دوبارہ قبضہ حاصل کر لیا ہے۔ یہ علاقے سعودی حمایت یافتہ افواج کے انخلا کے بعد سے یمن میں علیحدگی پسند گروہوں کے کنٹرول میں تھے۔

ایس ٹی سی کی جانب سے یہ پیش رفت ایک ایسے وقت پر سامنے آئی ہے جب سنہ 2022 میں جنگ بندی کے معاہدے کے بعد سے اس محاذ پر خاموشی تھی۔

اس پیشرفت نے مشرقِ وسطیٰ کے دو اہم ممالک، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات، کے درمیان یمن کے حوالے سے پائی جانی والی خلش کو تازہ کر دیا ہے۔

سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے اہم نشریاتی اداروں نے اس معاملے کو اپنے اپنے انداز میں نشر کیا۔

متحدہ عرب امارات کے حمایت یافتہ ’سکائی نیوز العربیہ‘ اور سعودی عرب کے حمایت یافتہ ’العربیہ نیوز‘ نے جنوب مشرقی یمن میں ہونے والی اس پیشرفت کی کوریج کرتے ہوئے نمایاں طور پر ایک دوسرے سے مختلف انداز اختیار کیا ہے۔

متحدہ عرب امارات کے ایک اہلکار نے آٹھ دسمبر کو خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا تھا کہ یمن پر اُن کا موقف ’سعودی عرب کے (مؤقف کے) مطابق ہے‘ لیکن اس محاذ پر تازہ ترین پیشرفت ظاہر کرتی ہے کہ یمن کی خانہ جنگی پر سعودی قیادت اور متحدہ عرب امارات کا مؤقف آج بھی ایک دوسرے سے مختلف ہے۔

دونوں ممالک کے حمایت یافتہ میڈیا میں رپورٹنگ

متحدہ عرب امارات کے حمایت یافتہ گروپ ’سدرن ٹرانزیشنل کونسل‘ (ایس ٹی سی) کی یمن میں حالیہ پیشرفت کے بعد سکائی نیوز العربیہ نے ایس ٹی سی کے بیانیے پر مبنی مختلف پروگرام نشر کیے جن میں ایس ٹی سی کے رہنما منصور صالح کا انٹرویو بھی شامل تھا۔

انھوں نے اپنے انٹرویو میں بتایا کہ کیسے اُن کی تحریک نے یمن میں حوثیوں کو حالیہ شکست دی ہے۔

سکائی نیوز العربیہ ٹی وی کے ساتھ اپنے انٹرویو میں صالح نے مزید کہا کہ اس جنگ کا مقصد سلامتی اور استحکام لانا ہے۔ انھوں نے یمن کے دارالحکومت عدن سے صدارتی لیڈرشپ کونسل کے اراکین کی روانگی کا بھی حوالہ دیا۔ یاد رہے کہ یمن میں اس کونسل کو سعودی حمایت یافتہ کونسل سمجھا جاتا ہے۔

قطر کے الجزیرہ ٹی وی نے بھی یمن کے دارالحکومت عدن سے حکومتی اراکین کی روانگی پر خبر نشر کی اور ایک حکومتی ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’یمن حکومت کے ارکان حضرموت اور المحرہ صوبوں میں ایس ٹی سی کی فوجی توسیع کے خلاف احتجاج کے لیے سعودی عرب روانہ ہوئے ہیں۔‘

دوسری جانب سعودی حمایت یافتہ ’العربیہ نیوز‘ نے یمن میں ہونے والی اس پیش رفت اور عدن سے وزرا کی آمد کو زیادہ کوریج نہیں دی۔

اس چینل نے اپنی محدود کوریج میں کہا کہ پی ایل سی یعنی صدارتی کونسل کے رہنما رشد علیمی نے ایس ٹی سی کی حالیہ ’یکطرفہ‘ کارروائیوں کی مذمت کی ہے۔

العربیہ نے علیمی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس طرح کے اقدامات ’ریاست (یمن) کی قانونی حیثیت اور عوامی مفادات کو نقصان پہنچاتے ہیں۔‘

سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے درمیان یمن سمیت مختلف معاملات پر پنپتی خاموش رقابت

بی بی سی مانیٹرنگ نے 16 جون 2025 کو یمن اور چند اہم دیگر معاملات پر ابوظہبی اور ریاض کے بیچ بڑھتی کشیدگی پر ایک تفصیلی تجزیہ شائع کیا تھا، جو ذیل میں پیش کیا جا رہا ہے۔

یمن تنازع یہ ظاہر کرتا ہے کہ جغرافیائی، سیاسی اور جیو اکنامک اُمور پر متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب کے مابین فاصلے بڑھ رہے ہیں۔

ان دونوں خلیجی ریاستوں کے اوپیک میں کیے گئے فیصلوں اور سوڈان، یمن اور دیگر سرحدی تنازعات پر مؤقف ایک دوسرے سے مختلف ہے۔

دونوں ممالک افریقہ میں علاقائی طاقت اور اثر و رسوخ کے لیے بھی آمنے سامنے ہیں۔

ایک ایسے وقت میں جب سعودی عرب علاقائی سیاست میں اہم کردار ادا کرتے ہوئے سرمایہ کاری کا مرکز بننے پر زور دے رہا تھا تو متحدہ عرب امارات افریقہ اور بحیرہ احمر میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کے لیے اپنی طاقت اور ذرائع کا استعمال کر رہا ہے۔

متعدد میڈیا رپورٹس کے مطابق پٹرولیم مصنوعات برآمد کرنے والے ممالک کی تنظیم اوپیک میں تیل کی پیدوار سے متعلق فیصلوں پر بھی ریاض اور ابوظہبی کے درمیان تناؤ بڑھا ہے۔

یو اے ای کی ’71‘ نامی ویب سائٹ کا کہنا ہے کہ اوپیک کے اندر اختلافات اور کشیدگی ابوظہبی اور ریاض کے درمیان اتحاد کے لیے خطرہ ہے۔

انھوں نے دی اکانومسٹ میگزین کے مضمون کا حوالہ دیا جس کا عنوان تھا کہ ’کیا متحدہ عرب امارات اوپیک توڑ دے گا؟‘ مضمون میں کہا گیا ہے کہ متحدہ عرب امارات نے ’کارٹیل کے قوانین کو بڑے پیمانے پر پامال کیا ہے۔‘

دی اکانومسٹ کا کہنا ہے کہ اوپیک کو بنانے والے اہم ملک سعودی عرب نے اس تنظیم کے اصولوں کی پاسداری کی ہے تاہم وہ اس کی خلاف ورزی کرنے والوں سے سختی سے نہیں نمٹا ہے۔

تاہم کچھ رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ ریاض اس جوڑ توڑ سے واقف ہے لیکن وہ ابوظہبی کے ساتھ تصادم نہیں کرنا چاہتا ہے۔

ابوظہبی اور ریاض کے درمیان اختلاف کی ایک اور وجہ متحدہ عرب امارات کی جانب سے یاسات کے علاقے کو میرین پروٹیکڈڈ ایریا یا سمندری تحفظ یافتہ علاقہ قرار دینا ہے۔

مارچ 2024 میں سعودی عرب نے متحدہ عرب امارات کے اس اقدام کے خلاف اقوام متحدہ میں شکایت درج کروائی تھی اور کہا تھا کہ ’یہ اقدام بین الاقوامی قوانین سے متصادم ہے۔‘

سعودی عرب نے متحدہ عرب امارات پر زور دیا تھا کہ وہ 1974 میں دونوں ممالک کے درمیان طے پانے والے جدہ کے معاہدے کی پاسداری کرے اور اس بات پر زور دیا کہ سعودی عرب اپنے ’ساحل سے دور متحدہ عرب امارات کی حکومت کی طرف سے کیے گئے کسی بھی اقدام یا طرز عمل کو تسلیم نہیں کرتا ہے۔‘

یورپی جرنل آف انٹرنیشنل لا (ای جے آئی ایل) کے بلاگ کے مطابق یاسات کس طرح دونوں ممالک کے درمیان ’سمندری حدود سے متعلق وسیع تر جھگڑے کا تازہ ترین فلیش پوائنٹ‘ بن گیا ہے۔

بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ 1974 کے جدہ معاہدے کے باوجود سرحدی تنازعات کا دوبارہ سامنے آنا، دو پڑوسی ممالک کے مابین ’خفیہ مقابلے‘ کو ظاہر کرتا ہے۔

یمن پر دونوں ممالک کے موقف میں تبدیلی

یمن کی صورتحال کے حوالے سے ریاض اور ابوظہبی کے موقف متضاد ہیں۔

متحدہ عرب امارات نے سنہ 2015 میں سعودی عرب کی قیادت میں یمن کے حوثی باغیوں (جنھیں ایران کی حمایت حاصل ہے) کے خلاف لڑی گئی جنگ میں اہم کردار ادا کیا تھا۔

لیکن دوسری جانب یمن کے جنوبی ساحل پر قدم جمانے کی خواہش اور بحیرہ احمر تک رسائی اور بندرگارہ کے تجارتی راستوں کو محفوظ بنانے کے لیے، متحدہ عرب امارات نے ایس ٹی سی کی افواج کی حمایت کی۔

ماضی میں ایس ٹی سی نے سرکاری افواج سے براہ راست جھڑپیں کی ہیں اور یمن کے جنوبی علاقے پر قبضہ بھی کر لیا تھا۔

مگر یہ وہ حمایت تھی جس نے متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب کے درمیان اختلافات کا بیج بویا کیوںکہ سعودی عرب یمن میں بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ حکومت اور فوج کی حمایت کرتا ہے۔

گذشتہ برسوں میں متحدہ عرب امارات نے یمن میں اپنی عسکری موجودگی کو بڑھایا ہے، جس میں سعودی حمایت یافتہ یمنی حکومت کے ساتھ افواج کی تربیت، انٹیلیجنس تعاون کو فروغ دینے اور خطرات سے نبرد آزما ہونے کے لیے سکیورٹی معاہدہ وغیرہ شامل ہے۔

سنہ 2021 میں ایسوسی ایٹڈ پریس کی ایک رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ متحدہ عرب امارات آبنائے باب المندب میں جزیرے مایون (پریم) پر ایک فضائی اڈہ بنا رہا ہے۔ اور ابوظہبی کی جانب سے اس سٹریٹیجک جزیرے میں فوجی اڈہ قائم کرنے کی کوششیں بھی ریاض کے لیے تشویش کا باعث بنیں۔

سوڈان اور پراکسی وار

کئی مبصرین کا کہنا ہے کہ ابوظہبی اور ریاض نے سوڈان میں جنگ کو ’مشرق وسطیٰ میں اپنی بالادستی کو مستحکم کرنے کے ایک موقع کے طور پر دیکھا ہے۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ’سوڈان سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی پراکسی جنگ کا میدان بن گیا ہے۔‘

سعودی عرب نے اصل میں سوڈان میں دو متحرک گروہوں، جن میں نیم فوجی ریپڈ فورسز (آر ایس ایف ) اور سوڈانی آرمڈ فورس شامل ہیں، کے بارے میں غیر جابندارانہ موقف اپنایا تھا اور دو سال سے زیادہ عرصے تک جاری رہنے والی اس جنگ کو امریکہ کی مدد سے ختم کرنے کی کوشش کی تھی۔

بعض میڈیا رپورٹس کے مطابق حال ہی میں سعودی عرب کے موقف میں تبدیلی آئی ہے اور گذشتہ سال مارچ میں مکہ میں سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے ساتھ ہونے والی ملاقات کے بعد سعودی عرب نے سوڈان کے ڈی فیکٹو صدر اور آرمی چیف لیفٹیننٹ جنرل عبدالفتاح البرہان کی حمایت کی ہے۔

سعودی عرب کا یہ اعلان ایسے وقت پر سامنے آیا جب آر ایس ایف اور اس کے اتحادیوں نے سوڈان متوازی حکومت قائم کر لی ہے۔

اس تبدیلی نے ریاض اور ابوظہبی کے درمیان دراڑ کو وسیع کر دیا، جس پر سوڈان کی فوجی قیادت والی ابوظہبی پر آر ایس ایف کو فوجی سازوسامان فراہم کرنے کا الزام لگاتی ہے۔

علاقائی قیادت کا شوق

سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات علاقائی قیادت کے حصول کے لیے ایک دوسرے سے مقابلہ کرتے ہیں۔ گذشتہ پانچ برسوں کے دوران ایک دوسرے کو سفارتی طور پر غیر اہم دکھانے کے لیے دونوں ممالک کے سربراہان ایک دوسرے کے اہم ایونٹس میں شریک نہیں ہوئے۔

علاقائی قیادت کے لیے ریاض کی خواہش کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ اُس نے اپنے حریف ملک ایران کے ساتھ تعلقات استوار کیے ہیں اور مارچ 2023 میں چین کی ثالثی سے سفارتی تعلقات کی بحالی کے لیے ایک حیرت انگیز معاہدے پر دستخط کیے تھے۔

متحدہ عرب امارات نے بھی ایران کے ساتھ میل جول بڑھایا اور دسمبر 2021 میں اس کے قومی سلامتی کے مشیر نے تہران کا غیر معمولی دورہ کیا۔ متحدہ عرب امارات نے اپنی ’پیس فرسٹ پالیسی‘ کے تحت سعودی-ایران معاہدے کا خیر مقدم کیا۔

تاہم مبصرین کا کہنا ہے کہ اگرچہ ایران کے ساتھ معاہدے نے سعودی عرب کی قیادت کی خواہش کو تقویت بخشی ہے لیکن متحدہ عرب امارات بھی خطے کی سیاست میں اہم کردار ادا کرنا چاہتا ہے۔

حالیہ تنازعات کے دوران ریاض نے خود کو اہم ملک کے طور پر پیش کرتے ہوئے اہم مذاکرات کی میزبانی کی اور مسائل کو حل کرنے میں اپنا کردار ادا کیا۔

دوسری جانب ابوظہبی نے اسرائیل اور عرب ممالک کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے امریکہ کی ثالثی میں ابراہیمی معاہدے میں اہم کردار ادا کرنے کے علاوہ بحیرہ احمر اور افریقہ میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کی کوشش کی ہے۔

متحدہ عرب امارات اسرائیل کے ساتھ تعلقات استوار کرنے والے ابراہیمی معاہدے میں شامل ہونے والا پہلا ملک ہے۔

سعودی عرب کا اس معاملے پر مختلف موقف تھا، سعودی عرب اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے سے قبل فلسطینی ریاست کے قیام پر زور دیا۔