دلی کار دھماکے کی تحقیقات اور گرفتاریوں سے خوفزدہ ڈاکٹرز: ’فون پر ایک دوسرے کو دلاسہ دینے سے بھی گھبراتے ہیں‘
،تصویر کا ذریعہGetty Images
- مصنف, ریاض مسرور
- عہدہ, بی بی سی اُردو، سرینگر
سرینگر کے ایک بڑے ہسپتال میں گزشتہ ماہ جب پولیس نے اچانک چھاپہ مار کر ڈاکٹروں کے لیے مخصوص لاکرز اور الماریوں کی تلاشی لی تو وہاں تعینات ایک ڈاکٹر شدید ذہنی تناو کا شکار ہو گئے۔
ذہنی دباؤ کا شکار ہونے والے اس ڈاکٹر کے علاوہ متعدد ڈاکٹروں نے بی بی سی کو بتایا کہ دہلی کار دھماکے کے حوالے سے ہونے والی تحقیقات ان کے لیے پریشانی کا باعث بن رہی ہیں۔
واضح رہے کہ ہسپتالوں میں ڈاکٹروں سے پوچھ گچھ اور ان کی الماریوں کی تلاشی کی مہم نومبر میں دہلی میں ہونے والے خودکش کار دھماکے کے بعد شروع کی گئی۔ اس دھماکے سے 10 افراد ہلاک اور درجنوں زخمی ہوئے تھے۔
انڈیا کی ’نیشنل انویسٹیگیشن ایجنسی‘ (این آئی اے) اس واقعے کی وسیع پیمانے پر تحقیقات کر رہی ہے اور اس دوران کئی کشمیری ڈاکٹروں اور ایک انڈین خاتون ڈاکٹر سمیت آٹھ افراد کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔
لال قلعہ کے باہر جب خودکش حملہ ہوا تو اس سے چند ہفتے قبل ہی پولیس عسکریت پسندوں کے ایک ’وائٹ کالر ماڈیول‘ کی تلاش میں تھی اور اس سلسلے میں ہریانہ اور دہلی سے بھاری مقدار میں دھماکہ خیز مواد بھی برآمد ہوا تھا۔
این آئی اے نے جب دہلی دھماکے کے بعد دعویٰ کیا کہ یہ خودکش حملہ فرید آباد کی الفلاح میڈیکل یونیورسٹی میں تعینات کشمیر کے ڈاکٹرعمر النبی نے کیا تھا تو کشمیر اور دوسرے انڈین شہروں میں تعینات کشمیری ڈاکٹروں کی پوچھ گچھ اور تلاشی مہم شروع کی گئی۔
سرینگر کے ہسپتال میں تعینات ڈاکٹرکا کہنا ہے کہ ان کی برادری آپس میں فون پر ایک دوسرے کو دلاسہ دینے سے بھی گھبراتی ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’مسلہ تلاشی سے نہیں کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ یہ سکیورٹی کا معاملہ ہے لیکن جس طرح یہ چھاپے مارے جا رہے ہیں اور پھر سوشل میڈیا پر وائرل ہوتے ہیں اس سے پوری کی پوری ڈاکٹر برادری انڈیا میں مشکوک نظرآتی ہے۔ یہ سب بغیر شور مچائے یا غیر اعلانیہ بھی کیا جا سکتا تھا۔‘
End of سب سے زیادہ پڑھی جانے والی
انڈین شہر بنگلور کے ایک کارپوریٹ ہسپتال میں تعینات ایک اور کشمیری ڈاکٹر کا کہنا ہے کہ ’سزا قصور وار کو ملنی چاہیے۔ اگر بعض ڈاکٹر ملوث ہیں تو اس میں سب ڈاکٹروں کی کیا غلطی ہے؟ اس طرح کے چھاپوں سے ہم ذہنی دباؤ کا شکار ہو رہے ہیں اور ہمارے کام پر اثر پڑ رہا ہے۔‘
،تصویر کا ذریعہEPA
بی بی سی اردو کی خبروں اور فیچرز کو اپنے فون پر حاصل کریں اور سب سے پہلے جانیں پاکستان اور دنیا بھر سے ان کہانیوں کے بارے میں جو آپ کے لیے معنی رکھتی ہیں
سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں
مواد پر جائیں
تلاشی مہم میں شامل ایک پولیس افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’یہ سکیورٹی پروٹوکال ہے۔ کشمیر کے سبھی اضلاع کے ہسپتالوں میں تلاشی ہو رہی ہے۔ سب کو معلوم ہے کہ اننت ناگ کے میڈیکل کالج میں ڈاکٹر مزمل گنائی کے لاکر سے رائفل برآمد ہوئی تھی۔ اس مہم میں ہسپتالوں کی انتظامیہ اور سبھی ڈاکٹر ہمارا تعاون کر رہے ہیں کیونکہ یہ قومی سلامتی کا مسلہ ہے۔‘
واضح رہے ڈاکٹر مزمل گنائی فرید آباد کی میڈیکل یونیورسٹی میں ڈاکٹر عمر النبی کے ساتھی تھے۔ ان کو بھی پولیس نے گرفتار کر لیا ہے اور ساتھ ہی لکھنو کی رہنے والی ڈاکٹر شاہین شاہد انصاری کو بھی گرفتار کیا گیا۔
بدھ کے روز بارہمولہ کے رہنے والے ایک اور ڈاکٹر بلال نصیر کو دہلی سے گرفتار کیا گیا۔ این آئی اے کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر بلال نے دہلی کار دھماکے کی منصوبہ سازی اور نقل و حمل میں ڈاکٹر عمر النبی کی مدد کی تھی۔
قابل ذکر بات یہ ہے کشمیر کے ہسپتالوں اور میڈیکل کالجوں کی انتظامیہ نے گزشتہ ماہ ایک سرکولر جاری کیا تھا جس میں ڈاکٹروں سے کہا گیا تھا کہ وہ اپنے لاکرز کو رجسٹر کروائیں۔
دراصل اننت ناگ کے میڈیکل کالج میں ڈاکٹر مزمل گنائی کا لاکر ایک سال سے بند پڑا تھا کیونکہ انھوں نے کالج چھوڑ کر فرید آباد کی الفلاح یونیورسٹی میں کام شروع کیا تھا۔
پولیس نے دہلی کار دھماکے سے قبل ہی ان کے لاکر سے رائفل برآمد کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔
پلوامہ کے ضلع ہسپتال کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر عبدالغنی بٹ نے گزشتہ ہفتے میڈیا کو بتایا کہ انھوں نے خود ہی پولیس کو بتایا تھا کہ ان کے ہسپتال میں ایسے لاکرز کی تلاشی لی جائے جنھیں طویل عرصے سے کھولا نہیں گیا۔
’کچھ لاکرز ایسے بھی تھے جن پر کوئی نام نہیں لکھا تھا، ہم نے پولیس کی موجودگی میں ان کا تالا توڑا لیکن وہاں میڈیکل کوٹ اور دستانوں کے سوا کچھ نہیں ملا۔‘
حالانکہ ڈاکٹروں نے اس تلاشی مہم کے بارے میں ابھی کوئی اجتماعی ردعمل ظاہر نہیں کیا لیکن اس مہم سے وہ خوف محسوس کر رہے ہیں۔
اس سلسلے میں وزیر صحت سکینہ ایتو نے ایک بیان بھی دیا جس میں انھوں نے تحقیقاتی ایجنسیوں کو تلقین کی کہ وہ اس مہم کے دوران طے شدہ ضابطوں کا خیال رکھیں۔
سابق وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی نے بھی اس پر اپنے ردعمل میں کہا کہ چند لوگوں کی غلط حرکتوں کے لیے پوری ڈاکٹر برادری کو شک کے دائرے میں لانا ملکی مفاد کے خلاف ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’پہلے تو ہمیں خود سے یہ سوال کرنا چاہیے کہ برسوں محنت کرنے اور ڈاکٹر بننے کے باوجود کچھ لوگ تشدد یا انتہا پسندی کی راہ اختیار کرنے پر کیوں مجبور ہوئے۔‘
انھوں نے یہ بھی کہا کہ ’تحقیقاتی ایجنسیوں کو اس بات کا بھی خیال رکھنا ہو گا کہ کہیں یہ تلاشی مہم پورے ملک میں جائز طریقے سے کام کرنے والے کشمیری ڈاکٹروں کے خلاف عوامی نفرت کا سبب نہ بنے۔‘
اہم خبریں
فیچر اور تجزیے
مقبول خبریں
مواد دستیاب نہیں ہے