دہلی دھماکے میں ملوث ’مبینہ خودکش بمبار‘ کی شناخت ظاہر کردی گئی، کشمیر میں خاندانی گھر مسمار

،تصویر کا ذریعہReuters
- مصنف, گیتا پانڈے
- عہدہ, دہلی
- مصنف, عاقب جاوید
- عہدہ, پلواما
انڈیا میں تفتیش کاروں نے اس شخص کی شناخت ظاہر کر دی ہے جس کے بارے میں ان کا دعویٰ ہے کہ وہ گذشتہ پیر کو دہلی کے تاریخی لال قلعہ کے قریب دھماکے سے پھٹنے والی گاڑی چلا رہا تھا۔
انڈیا کی نیشنل انویسٹی گیشن ایجنسی (این آئی اے) نے عمر النبی نامی شخص کو گاڑی میں سوار ’مبینہ خودکش بمبار‘ قرار دیا ہے۔ اس دھماکے میں 10 افراد ہلاک اور 32 زخمی ہوئے تھے۔
این آئی اے کے مطابق انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر کے رہائشی عمر دہلی کے مضافاتی علاقے فرید آباد میں واقع الفلاح یونیورسٹی کے جنرل میڈیسن ڈیپارٹمنٹ میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر کام کر رہے تھے۔
این آئی اے نے مزید کہا کہ گاڑی کے ڈرائیور کی شناخت فرانزک طریقوں سے کی گئی ہے۔
عمر کے والد اور بھابھی نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ اس واقعے کے بارے میں ’کچھ بھی نہیں جانتے۔‘
ایجنسی کی طرف سے اتوار کو ’مبینہ خودکش بمبار‘ عمر کی شناخت اس وقت ظاہر کی ہے جب اس نے ایک اور شخص کی گرفتاری ظاہری کی ہے، جس کا تعلق انڈیا کے زیر انتظام کشمیر سے بتایا جاتا ہے۔ تفتیش کاروں کے مطابق اس دھماکے میں استعمال ہونے والی گاڑی مبینہ طور پر ان کے نام پر رجسٹرڈ تھی۔
گذشتہ ہفتے دہلی میں ایک ایسے وقت پر دھماکہ ہوا جب انڈین پولیس نے دعویٰ کیا تھا کہ حالیہ ہفتوں میں اس نے ملک کے مختلف حصوں سے سات افراد کو گرفتار کیا اور فرید آباد سے 2,900 کلوگرام دھماکہ خیز مواد ضبط کیا، جو کہ دہلی کا وہی مضافاتی علاقہ ہے جہاں عمر رہتے اور کام کرتے تھے۔
این آئی اے نے گذشتہ ہفتے بی بی سی کو تصدیق کی تھی کہ وہ تحقیقات کر رہے ہیں کہ دھماکے کا گرفتاریوں اور ضبط کیے گئے مواد سے کوئی تعلق ہے یا نہیں۔
End of سب سے زیادہ پڑھی جانے والی

،تصویر کا ذریعہFaisal Bashir
اگرچہ پولیس یا این آئی اے نے ’مبینہ خودکش بمبار‘ کا نام سرکاری طور پر تو ظاہر نہیں کیا تھا، لیکن عمر کا نام دھماکے کے چند گھنٹوں کے بعد ہے انڈیا میں سرخیوں میں آ گیا تھا۔
اس رات عمر کے والدین کے گھر پر سکیورٹی فورسز نے تلاشی لی اور ان کے چار اہل خانہ کو حراست میں بھی لے لیا گیا تھا۔ ان میں ان کے دو بھائی، بہن اور بہنوئی شامل تھے، جنہیں ابھی رہا نہیں کیا گیا ہے۔
خاندان کو دیگر اقدامات کا بھی سامنا کرنا پڑا ہے۔
جمعرات کی رات کو انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر کے ضلع پلوامہ کے ایک گاؤں میں اس خاندان کا گھر سکیورٹی فورسز نے مسمار کر دیا تھا۔
بی بی سی نے ان کے والدین کے گھر کا دورہ کیا ہے، جسے چند دن پہلے مسمار کیا گیا تھا اور وہاں خاندان اور ان کے پڑوسی صدمے میں تھے۔
انھوں نے کہا کہ انھیں اتوار کی شام کے مہلک واقعات اور عمر کے خلاف الزامات کے بارے میں سوشل میڈیا سے معلوم ہوا۔
عمر کی تصویر ہر نیوز چینل پر پھیل گئی اور وائرل ہو گئی تھی۔
ان کے گھر پر درجن بھر رپورٹرز اور کیمرامین ان کے ریٹائرڈ سکول ٹیچر والد کی اردگرد جمع ہو گئے اور عمر کے بارے میں سوالات کیے۔
انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ دھماکے کی رات اور اس کے بعد کے دنوں میں جو کچھ ہوا اس نے ان کے خاندان کی زندگی ایسے بدلی جو دوبارہ کبھی پہلے جیسی نہیں ہو سکتی ۔
انھوں نے کہا کہ خاندان کے پاس صرف ایک گاڑی تھی جو ان کے گھر کے باہر کھڑی تھی۔
انھں نے مزید بتایا کہ ’ہمیں اس گاڑی کے بارے میں علم نہیں تھا جس کے بارے میں پولیس کہہ رہی ہے کہ وہ بم دھماکے میں استعمال ہوئی۔‘
تفتیش کاروں کی کئی ٹیمیں ان کے گھر گئیں، عمر کے بارے میں سوالات کیے، جن میں یہ بھی شامل تھا کہ وہ آخری بار کب گھر آئے تھے اور خاندان نے کب ان سے بات کی۔
ان کے والد اتنے پریشان تھے کہ مزید سوالات کے جواب نہ دے سکے، لیکن خاندان کے دیگر افراد اور پڑوسیوں نے اس رات جو کچھ ہوا اسے سمجھنے میں ہماری مدد کی۔

،تصویر کا ذریعہEPA
بی بی سی اردو کی خبروں اور فیچرز کو اپنے فون پر حاصل کریں اور سب سے پہلے جانیں پاکستان اور دنیا بھر سے ان کہانیوں کے بارے میں جو آپ کے لیے معنی رکھتی ہیں
سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں
مواد پر جائیں
خاندان نے بی بی سی کو بتایا کہ عمر کے ایک بھائی کو دھماکے کے چند منٹوں کے بعد ہی سکیورٹی فورسز نے بلایا اور ان سے پوچھ گچھ کی گئی۔
انھیں تقریبا تین گھنٹے بعد جانے کی اجازت دی گئی لیکن جیسے ہی وہ گھر پہنچے، سکیورٹی فورسز آئیں اور انھیں گرفتار کر لیا۔
کچھ دیر بعد دوسری ٹیم نے ان کے دوسرے بھائی کو پکڑا اور ان کے لیپ ٹاپ اور فون ضبط کر لیے۔
صبح سویرے تیسری ٹیم پہنچی اور گھر کی مکمل تلاشی لی۔
تین گھنٹے بعد جب وہ روانہ ہوئے تو عمر کی والدہ کو ان کے ساتھ جانے کو کہا گیا۔ چند گھنٹے بعد ان کے والد کو بھی پولیس نے طلب کیا، بعد میں ان دونوں کو ڈی این اے کے نمونے لینے کے بعد رہا کر دیا گیا۔
کشمیر پولیس اور اس کی خصوصی تفتیشی ایجنسی (ایس آئی اے) نے گرفتاریوں اور مکان کے انہدام پر تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا ہے اور بی بی سی کو بتایا ہے کہ ’تفتیش ابھی جاری ہے۔‘
دریں اثنا عمر کے خاندان اور پڑوسی اب بھی سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ کیا ہوا ہے۔
ایک رشتہ دار نے کہا کہ سب لوگ اس دھماکے کی خبر سن کر صدمے میں تھے۔ بہت سے لوگوں نے کہا کہ دھماکے کی خبر اور اس کا اپنے گاؤں سے مبینہ تعلق سن کر وہ حیران رہ گئے۔
جمعرات کی رات کو سکیورٹی فورسز واپس آئیں اور تمام خاندان کو گھر سے باہر نکلنے کو کہا۔
ایک رشتہ دار نے پیر کو بی بی سی کو بتایا کہ ’کچھ دیر بعد ہم نے ایک زور دار دھماکے کی آواز سنی اور گھر زمین بوس کر دیا گیا۔‘
انھوں نے کہا کہ ’سردیوں سے پہلے عمر کے والدین، حاملہ بھابھی اور چھوٹے بچے اب بے گھر ہو چکے ہیں اور رشتہ دار کے گھر میں پناہ لے رہے ہیں۔‘
انہوں نے مزید سوالات کے جواب دینے سے انکار کر دیا اور کہا کہ ’ہمارے پاس کہنے کو کچھ نہیں، جو ہونا تھا وہ ہو گیا۔‘











