شاہی شکاریوں کی آمد سے کسان پریشان

- مصنف, بیورو رپورٹ
- عہدہ, بی بی سی اردو ڈاٹ کام، لاہور
پاکستان کے صوبہ پنجاب کے علاقے بھکر کے کسان قطری شاہی خاندان کے تلور کے شکار کے دوران اپنی چنے کی فصل خراب ہونے پر معاوضے کی ادائیگی کے منتظر ہیں۔
کسانوں کے مطابق قطر کے شاہی خاندان کے افراد کے شکار کھیلنے سے ان کی چنے فصل کو نقصان پہنچا ہے۔
قطر کے شاہی خاندان کے افراد ان دنوں پاکستان میں تلور کے شکار میں مصروف ہیں اور پنجاب کے بارانی علاقے میں شکار کھیل رہے ہیں۔ حکومت نے خصوصی طور پر تلور کا شکار کرنے کی خصوصی اجازت دی ہے اور تلور کے شکار پر پابندی پر نرمی کی گئی ہے۔

،تصویر کا ذریعہGetty Images
گذشتہ دنوں چھوٹے کسانوں نے بھکر کی تحصیل مارنکیر کے علاقے ماہنی میں قطری شاہی خاندان کے شکار اور اپنی فصل کے نقصان پر احتجاج کیا جس پر پولیس نے مظاہرین پر لاٹھی چارج کیا۔
بھکر کا علاقہ بارانی علاقہ ہے اور سال بھر میں ایک فصل ہوتی ہے اور چنے کی فصل اکتوبر میں کاشت کی جاتی ہے۔
متاثرہ کسانوں نے افسوس کا اظہار کیا ہے کہ ان کو فصل کے نقصان کے عوض جو معاوضہ ادا کرنے کی پیشکش کی گئی ہے وہ نقصان کے مقابلے کچھ بھی نہیں ہے۔
کسانوں کا کہنا ہے کہ اس بار بارش نہ ہونے کی وجہ سے خشک سالی کی صورتحال ہے جس کی وجہ سے وہ دھرے نقصان کا سامنا کر رہے ہیں۔
End of سب سے زیادہ پڑھی جانے والی
متاثرہ کسان شاہ بیگ نے بی بی سی کو بتایا کہ چند کسانوں کو چنے کی فصل کے نقصان پر دو سے چار ہزار روپے معاوضہ ادا ادا کیا گیا ہے جسے کسانوں نے رد کر دیا ہے۔
شاہی خاندان کے تلور کے شکار پر عدالت سے رجوع کرنے والے وکیل ممتاز حسین کے بقول مقامی سول کورٹ کے روبرو وائلڈ لائف کے حکام نے یہ یقین دہانی کرائی تھی کہ کسانوں کی اراضی کو نقصان نہیں ہوگا لیکن اس یقین دہانی کی پاسداری نہیں کی گئی۔

وکیل کے بقول وائلڈ لائف حکام اور دیگر افراد کے خلاف دوبارہ عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا جس پر عدالت نے حکام کے پیش نہ ہونے پر ان کے وارنٹ گرفتاری جاری کیا۔
ممتاز حسین ایڈووکیٹ کا کہنا ہے کہ عدالت سے رجوع کرنے کی پاداش میں پولیس نے ان کے گھر پر دھاوا بول دیا۔
وکیل کے مطابق معاوضے کے نام بھیک دی جا رہی ہے اور یہ بات کسانوں کی غیرت کو گوارا نہیں ہے۔
مظاہرہ کرنے والے کسان شاہ بیگ کا کہنا ہے کہ وہ بے بس ہیں اور ان کے پاس دادرسی کا کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔
کسان کے بقول ان کے پاس اتنے وسائل نہیں کہ وہ اپنی دادرسی کے لیے عدالتوں کا رخ کریں کیونکہ قانونی چارہ جوئی کے لئے پیسے چاہیں جو غریب کسانوں کے بس کی بات نہیں ہے۔
ممتاز حسین ایڈووکیٹ نے کہا کہ فصل کو پہنچنے والے نقصان کے معاوضہ کی ادائیگی کا تو معلوم نہیں تاہم کسان چاہتے ہیں کہ چادر اور چار دیواری کا تقدس برقرار رکھا جائے۔
وکیل نے بتایا کہ چادر اور چار دیواری کے تقدس اور معاوضہ کی ادائیگی کے لئے 13 دسمبر کو مقامی انتظامیہ سے دوبارہ مذاکرات ہوں۔
ان کے بقول پہلے بھی انتظامیہ سے مذاکرات کے لئے وقت مقرر ہوا تھا لیکن عین وقت انتظامیہ نے بہانہ بنا کر ٹال دیا.
ممتاز حسین ایڈووکیٹ نے واضح کیا کہ انتظامیہ سے مذاکرات کے بعد یہ وہ فیصلہ کریں گے کہ قانونی چارہ جوئی کے لیے کیا راستہ اختیار کیا جائے.









