’بریڈلو ہال لاہور کی تاریخ کا موتی ہے‘

بریڈّلاؤ ہال
،تصویر کا کیپشنتین ہزار افراد کی گنجائش والے اس ہال کا افتتاح 30 اکتوبر 1900 کو کانگریس کے معروف رہنما سریندر ناتھ بینرجی نے کیا تھا
    • مصنف, عابد حسین
    • عہدہ, بی بی سی اردو ڈاٹ کام، لاہور

جنوبی ایشیائی ممالک بالخصوص پاکستان میں تاریخ اور تاریخی کرداروں کی قدر میں کوتاہی دیکھنے میں آتی رہی ہے۔ کئی مواقع پر تاریخ کو توڑ مروڑ کر اور مبالغہ آرائی کے ساتھ پیش کیا گیا تو کبھی تاریخ کے اوراق سے واقعات اور شخصیات کو مکمل طور پر نظر انداز کر دیا گیا۔

ایسی ہی غفلت تاریخی عمارتوں کے ساتھ بھی برتی جاتی رہی ہے۔ کہیں انھیں مسمار کر دیا گیا تو کہیں ان پر رنگ و روغن کر کے ان پر کیے ہوئے اصل نقش و نگار کو چھپا دیا گیا یا کہیں ان کو مقفل کر کے بھلا دیا تاکہ وقت کے ساتھ ساتھ لوگ انھیں بھول جائیں۔

ایسے ہی ایک عمارت لاہور میں تاریخی داتا دربار سے ایک کلومیٹر سے بھی کم فاصلے پر واقع ہے جسے تعمیر ہوئے 117 سال بیت گئے ہیں لیکن لاہور میں متعدد لوگوں سے اس عمارت کے بارے میں سوال کرنے پر کسی جواب کے بجائے چہروں پر صرف سوالیہ نشانات نظر آئے۔

بریڈلو ہال کے نام سے جانے والی، سات کنال کے رقبے پر قائم سرخ اینٹوں سے بنی عمارت انگریز طرز تعمیر کا نمونہ ہے۔

تین ہزار افراد کی گنجائش والے اس ہال کا افتتاح 30 اکتوبر 1900 کو کانگریس کے معروف رہنما سریندر ناتھ بینرجی نے کیا تھا۔ یہ عمارت ایک انگریز سیاست دان چارلز بریڈلو کے نام سے منسوب ہے جو 1880 کی دہائی میں برطانوی پارلیمان کے رکن تھے۔

چارلز بریڈلو نے اپنی زندگی میں ہمیشہ سیکیولر خیالات کا پرچار کیا اور لندن میں سیکیولر سوسائٹی کی صدرات بھی سنبھالی اور پارلیمان کا رکن بننے کے بعد انھوں نے برصغیر کی آزادی اور انڈین نیشنل کانگریس کی حمایت میں آواز اٹھائی۔

چارلز بریڈ لو

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشنچارلز بریڈلو نے اپنی زندگی میں ہمیشہ سیکیولر خیالات کا پرچار کیا

انھی وجوہات کی بنا پر انھیں 'ممبر آف انڈیا' کا خطاب بھی ملا اور ان کے بارے میں لکھی گئی مختلف سوانح حیات میں برصغیر کی آزادی کے لیے ان کی خدمات کا ذکر کیا گیا ہے۔

1891 میں چارلز بریڈلو کی وفات کے بعد انڈیا سے اس قریبی تعلق کی وجہ سے لاہور میں ان کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے کانگریس کے اراکین نے یہ عمارت تعمیر کروائی۔

سنتوش کمار اپنے سفرنامے 'لاہور نامہ' میں لکھتے ہیں کہ بریڈلو ہال کو پنجاب میں انڈین نیشنل کانگریس کے مرکزی دفتر کی حیثیت سے استعمال کیا گیا جبکہ بعد میں یہاں دیگر سیاسی، ثقافتی اور سماجی تقریبات منعقد ہوتی رہیں جہاں اس وقت کے دانشور، شاعر، اور فنکار جمع ہوا کرتے تھے۔

تاریخ دان طارق کامران اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں کہ پہلی جنگ عظیم کے خاتمے کے موقع پر برصغیر کے چند بڑے مشاعروں میں سے ایک 1919 میں بریڈلو ہال میں منعقد ہوا تھا۔ اس کے علاوہ انڈیا کی بڑی تھیٹر کمپنیوں نے بھی یہاں اپنے فن کے جوہر دکھائے۔

لیکن بریڈلو ہال کی حقیقی شہرت یہاں ہونے والی سیاسی سرگرمیوں کی وجہ سے تھی اور انڈین آزادی کے معروف نام یہاں جمع ہوا کرتے تھے۔ بھگت سنگھ، لالہ راجپت رائے، مولانا ابوالکلام آزاد اور کانگریس کے دیگر بہت سے رہنماؤں نے یہاں خطابت کے جوہر دکھائے۔

بریڈلاؤ ہال
،تصویر کا کیپشن1990 اور 2000 کی دہائی میں عمارت کو بطور سکول اور ٹیوشن سینٹر استعمال کیا جاتا رہا

یہ امر قابل غور ہے کہ انگریزوں کے دور میں مسلم اکثریتی لاہور میں ایک ایسی عمارت انڈیا کی آزادی کی منصوبہ بندی کے لیے استعمال ہو رہی تھی جسے ہندؤوں نے ایک انگریز کے نام سے منسوب کیا جس نے خود کبھی بھی لاہور کا دورہ نہیں کیا۔

1920 کی دہائی میں اپنا عروج دیکھنے کے بعد تقسیم ہند کے بعد بریڈلو ہال کی شہرت اور اہمیت ماند پڑنے لگی۔ وہ جگہ جہاں بھگت سنگھ جیسے آزادی کے ہیروز خطابت کیا کرتے تھے، اس عمارت کو بطور گودام استعمال کیے جانے لگا۔

1956 میں لاہور میں آنے والے طوفان اور سیلاب نے عمارت کو نقصان پہنچایا جس کے بعد حکومت نے اسے ملی تکنیکی ادارے کو 99 سال کے لیے پٹے پر دے دیا۔ نئی انتظامیہ نے عمارت پر اپنا نام اور نشان کندہ کر کے وہاں پر تکنیکی تربیتی ادارہ کھول دیا لیکن 1980 کی دہائی میں اندرونی اختلافات کی بنا پر اسے خالی کر گئے اور مختلف لوگوں کو عمارت استعمال کرنے کی اجازت دے دی۔

1990 اور 2000 کی دہائی میں عمارت کو بطور سکول اور ٹیوشن سینٹر استعمال کیا جاتا رہا اور ہال کے اندر گیلری میں کلاس روم بنانے کے لیے عارضی دیواریں کھڑی کر دی گئی جبکہ ہال کے اطراف میں کنواں اور وضو خانہ تعمیر کر دیے گئے۔

2009 میں حکومت کے ادارے برائے متروک املاک کے عملے نے ضوابط کی خلاف ورزی کرنے پر عمارت کو سربمہر کر دیا جس کے بعد سے برصغیر کی آزادی میں اہم کرداروں کی گواہ اس عمارت کی حالت دگرگوں ہے۔

ملی تکنیکی ادارہ
،تصویر کا کیپشن1956 میں لاہور میں آنے والے طوفان اور سیلاب نے عمارت کو نقصان پہنچایا جس کے بعد حکومت نے اسے ملی تکنیکی ادارے کو 99 سال کے لیے پٹے پر دے دیا تھا

ادارے برائے متروک املاک کے افسر تنویر حسین نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے نے بریڈلو ہال کے بارے میں بتایا کہ ملی تکنیکی ادارے نے ان کے ادارے پر مقدمہ دائر کیا ہوا ہے کہ عمارت انھیں واپس کی جائے لیکن ان کے مطابق جیسے ہی اس مقدمے کا فیصلہ ہوگا، بریڈلو ہال کو ادارہ اپنے فنڈز استعمال کرتے ہوئے دوبارہ قابل استعمال بنائے گا۔

'ہم چاہتے ہیں کہ سول سوسائٹی سے ماہرین، دانشوروں اور مختلف لوگوں کو بلا کر ان سے گفتگو کی جائے ہیں تاکہ اس عمارت کے مستقبل کے بارے میں فیصلہ کیا جائے اور اسے عوامی استعمال کے لیے دوبارہ کھولا جائے۔'

لیکن بریڈلو ہال کے اطراف میں رہنے والے رہائشیوں کا خدشہ ہے کہ حکومت کا کوئی بھی منصوبہ ان کے لیے خطرے کا باعث بن سکتا ہے کیونکہ ان کے گھر ہال سے متصل ہیں اور کسی بھی قسم کی تعمیر اور نئے منصوبے کی وجہ سے ان سے مکانات خالی کرنے کا مطالبہ کیا جا سکتا ہے۔

دوسری جانب برطانیہ میں چارلز بریڈلو کے اعزاز میں بنائی گئی چارلز بریڈلو سوسائٹی کے اراکین نے بھی اس ہال کی مرمت کے لیے درخواستیں دی ہیں لیکن ان کی کوئی شنوائی نہیں ہوئی ہے۔

بریڈلاؤ ہال
،تصویر کا کیپشن2009 میں حکومت کے ادارے برائے متروک املاک کے عملے نے ضوابط کی خلاف ورزی کرنے پر عمارت کو سربمہر کر دیا

تنظیم کے رکن کرسٹوف پاؤنڈز نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ '18 ماہ سے ہم کوششیں کر رہے ہیں کہ اس پٹیشن کی حمایت حاصل کر سکیں اور اسے حکومت پنجاب تک پہنچایا جا سکے لیکن ابھی تک ہم کامیاب نہیں ہوئے ہیں۔'

تاریخ دان اور مصنف سلمان رشید نے بھی بی بی سی گفتگو کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ بریڈلو ہال لاہور کی تاریخ کا ایک نہایت اہم باب ہے اور آئندہ نسلوں کی معلومات برقرار رکھنے کے لیے اس کی بحالی بہت ضروری ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ 'یہ عمارت تو لاہور کی تاریخ کا موتی ہے۔' لیکن بدقسمتی سے حکومتی اراکین کے وعدوں کے باوجود مستقبل قریب میں بریڈلو ہال کی تقدیر بدلنے کے امکانات معدوم نظر آتے ہیں۔