نہرو، ایڈوینا کی قربت سے کس خاتون کو حسد تھا

جواہر لال نہرو

،تصویر کا ذریعہGetty Images

    • مصنف, ریحان فضل
    • عہدہ, بی بی سی ہندی

جب پنڈت جواہر لال نہرو نے دو ستمبر 1946 کو عبوری حکومت میں شامل ہونے کا فیصلہ کیا تو انھیں دلی کے 16 یورک روڈ پر 4 بیڈرم کا ایک بنگلہ الاٹ کیا گیا۔ یورک روڈ اب موتی لال نہرو مارگ یا روڈ کے نام سے جانا جاتا ہے۔

جواہر لال نہرو اس بنگلے سے کافی خوش تھے۔ لیکن جب گاندھی کا قتل ہوا تو نہرو کی سکیورٹی میں اضافہ کردیا گیا اور ان کے گھر میں پولیس کے خیمے لگا دیے گئے۔

یہ مطالبہ بڑھنے لگا کہ نہرو کو کسی اور گھر میں منتقل کردینا چاہیے جہاں ان کے تحفظ کو یقینی بنایا جا سکے۔ لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے مشورہ دیا کہ نہرو کو کمانڈر ان چیف کی رہائش پر منتقل کردینا چاہیے۔

سردار پٹیل نے ان سے کہا کہ وہ ابھی تک اس غم سے باہر نہیں آ سکے ہیں کہ وہ گاندھی کی حفاظت نہ کرسکے۔ لارڈ ماؤنٹ بیٹن کے کہنے پر کابینہ نے نہرو کو کمانڈر ان چیف کی رہائش گاہ میں منتقل کرنے کو منظوری دے دی۔ نہرو اس پیشرفت سے بہت زیادہ خوش نہیں تھے۔

نہرو کے معاون رہ چکے ایم او متھائی اپنی کتاب ’ریمینیسز آف نہرو ایج‘ میں لکھتے ہیں ’جب نہرو اس گھر میں منتقل ہوئے انھوں نے وزیر اعظم کو انٹرٹینمنٹ کے لیے ملنے والے ماہانہ 500 روپے لینے سے انکار کردیا۔‘

جواہر لال نہرو

،تصویر کا ذریعہGetty Images

’بعض وزرا نے، جن میں گوپالا سوامی آیانگر اہم تھے، مشورہ دیا کہ وزیر اعظم کی تنخواہ دیگر وزرا کے مقابلے میں دو گنی ہونی چاہیے لیکن نہرو نے اس کو قبول کرنے سے انکار کردیا۔‘

’آزادی کے وقت وزیر اعظم کی تنخواہ 3000 ماہانہ طے کی گئی تھی لیکن انہوں نے پہلے اسے 2250 اور بعد میں 2000 روپے کر دیا۔‘

نہرو کی دریادلی

سنہ 1946 کے بعد نہرو اپنی جیب میں ہمیشہ 200 روپے رکھتے تھے لیکن جلد ہی پیسے ختم ہو جاتے تھے کیونکہ وہ ضرورت مند لوگوں میں یہ پیسے تقسیم کردیتے تھے۔

متھائی کہتے ہیں کہ میں نے نہرو کی جیب میں 200 روپے رکھنے پر روک لگا دی تھی لیکن تب نہرو نے انہیں دھمکی دی کہ وہ ادھار لے کر ضرورت مندوں کی مدد کریں گے۔

متھائی مزید لکھتے ہیں ’میں نے حکم جاری کروایا کہ کوئی بھی اہلکار نہرو کو دن میں 10 روپے سے زیادہ ادھار نہ دے۔ پھر میں نے نہرو کے سیکریٹری کے پاس وزیر اعظم امدادی فنڈ سے کچھ پیسے رکھوانے شروع کردیے۔ نہرو اپنے اوپر بہت کم پیسے خرچ کرتے تھے۔ اس حد تک کہ انہیں کنجوس بھی کہا جاتا تھا۔ لیکن سیس برونر نے گاندھی کی جو پینٹگ بنائی تھی اسے خریدنے کے لیے 5000 روپے خرچ کرتے ہوئے انہیں ایک سیکنڈ بھی نہیں لگا تھا۔‘

وہ مزید لکھتے ہیں ’جب 27 مئی 1964 کو نہرو کی وفات ہوئی تو ان کے پاس ان کا آبائی گھر آنند بھون تھا اور ان کے بینک اکاؤنٹ میں صرف اتنے پیسے تھے کہ وہ ہاؤس ٹیکس ادا کرسکیں۔‘

جواہر لال نہرو

،تصویر کا ذریعہGetty Images

ایڈوینا ماؤنٹ بیٹن سے نہرو کی قربت

لوگ کہتے ہیں کہ وائسرائے لارڈ ماؤنٹ بیٹن کی اہلیہ ایڈوینا پر نہرو کا دل آ گیا تھا لیکن ایڈوینا سے پہلے وائسرائے ویویل کی اہلیہ لیڈی یوجین ویویل بھی نہرو کو دل و جان سے چاہتی تھیں۔ وہ چونکہ عمر میں نہرو سے بڑی تھیں اور شکل و صورت کے اعتبار سے بہت زیادہ خوبصورت نہیں تھیں، اس لیے ان کے بارے میں اتنی افواہیں نہیں پھیلیں۔

نہرو ویویل کے زمانے میں بھی گورنمنٹ ہاؤس میں سوئمنگ پول میں تیرنے کے لیے جاتے تھے لیکن تب اس بارے میں کوئی ذکر نہیں ہوا۔ لوگوں کی توجہ اس طرف تب مرکوز ہوئی جب ایڈوینا ماؤنٹ بیٹن بھی اس سوئمنگ پول میں نہرو کے ساتھ تیرتی ہوئی دیکھی گئیں۔

نہرو کے ساتھ ایڈوینا کی دوستی اس وقت پروان چڑھی جب ایڈوینا اور ان کا خاندان واپس انگلینڈ جانے کی تیاری کررہا تھا۔

ماؤنٹ بیٹن کی سوانح عمری لکھنے والے فلپ زیگلر اور ’فریڈم ایٹ مڈنائٹ‘ کے مصنف لیری کولنس اور ڈومنیک لاپیئر نے اس بارے میں بہت بے باکی سے لکھا ہے۔

نہرو کی سوانح عمری کے مصنف ایم جے اکبر لکھتے ہیں ’اس بارے میں سب سے پختہ ثبوت ٹاٹا سٹیل کے ایک سابق اعلیٰ اہلکار روسی مودی نے دیا تھا۔ 1949 سے 1952 کے درمیان روسی کے والد سر ہومی مودی اترپردیش کے گورنر کے عہدے پر فائز تھے۔ نہرو اترپریش کے مشہور ہل سٹیشن نینیتال گئے ہوئے تھے اور گورنر مودی کے ہمراہ ٹھہرے ہوئے تھے۔‘

’جب رات کے 8 بجے تو سر مودی نے اپنے فرزند سے کہا کہ وہ نہرو کے کمرے میں جاکر انہیں اطلاع دے کہ میز پر کھانا لگ چکا ہے اور سب لوگ ان کے منتطر ہیں۔‘

اکبر مزید لکھتے ہیں ’جب روسی مودی نے نہرو کے کمرے کا دروازہ کھولا تو انھوں نے دیکھا کہ نہرو نے ایڈوینا کو اپنی باہوں میں بھرا ہوا تھا۔ نہرو نے روسی کو دیکھا اور انہوں نے عجیب سا منھ بنایا۔ مودی نے جلدی سے دروازہ بند کردیا اور باہر چلے گئے۔ تھوڑی دیر بعد نہرو کھانے کی میز پر پہنچے اور پھر ان کے پیچھے پیچھے ایڈوینا بھی آگئیں۔‘

جواہر لال نہرو

،تصویر کا ذریعہGetty Images

ایڈوینا کا جواہا

نہرو کی ایک اور سوانح عمری لکھنے والے مصنف سٹینلے والپرٹ لکھتے ہیں کہ انہوں نے نہرو اور ایڈوینا کو دلی کی للت کلا اکیڈمی میں ایک پروگرام کی افتتاحی تقریب میں دیکھا تھا۔

والپرٹ لکھتے ہیں ’مجھے یہ دیکھ کر بڑا تعجب ہوا کہ نہرو کو سرعام ایڈوینا کو چھونے، ان کا ہاتھ پکڑنے اور ان کے کانوں میں باتیں کرنے سے کوئی پرہیز نہیں تھا۔ ماؤنٹ بیٹن کے نواسے لارڈ ریمسی نے مجھ سے کہا تھا کہ ان دونوں کے درمیان محض ایک اچھی دوستی تھی۔ اس سے زيادہ کچھ بھی نہیں۔ لیکن خود لارڈ ماؤنٹ بیٹن ایڈوینا کے نام لکھے نہرو کے خطوط کو 'محبت نامے' کہا کرتے تھے۔ ان سے زیادہ کسی کو یہ اندازہ نہیں تھا کہ ایڈوینا کس حد تک اپنے 'جواہا' کو چاہتی تھیں۔‘

یہ بھی پڑھیے

جواہر لال نہرو

،تصویر کا ذریعہGetty Images

آخری وقت تک نہرو کے پاس ایڈوینا کے خطوط تھے

جب 21 مارچ 1949 کو جواہر لال نہرو دولت مشترکہ کے اجلاس میں شرکت کے لیے لندن گئے تو ہیتھرو ہوائی اڈے پر لندن میں بھارتی سفارتکار کرشنا مینن نے ان کا استقبال کیا اور اپنی رولز روئس میں انہیں ایڈوینا ماؤنٹ بیٹن کے گھر لے گئے۔

اوپی رلہن اپنی کتاب ’جواہر لال نہرو ابروڈ- اے کورنولوجیکل سٹڈی‘ میں ذکر کرتے ہیں کہ اگلے دن نہرو نے جارج پنچم کے ساتھ دوپہر کا کھانا کھایا اور اس کے بعد شام کو انھوں نے برطانیہ کے وزیر اعظم کلیمنٹ ایٹلی سے ملاقات کی۔ اس کے بعد ایڈوینا انھیں کار میں اپنے گھر ’براڈلینڈز‘ لے گئیں جہاں انھوں نے ساتھ ویکنڈ گزارا۔

نہرو کے معاون متھائی کو بھی اس بارے میں تشویش اس وقت ہوئی جب انھوں نے غلطی سے ایڈوینا کا اپنے ’ڈارلنگ جواہا‘ کو لکھا ایک خط پڑھ لیا۔

ایڈوینا ماؤنٹ بیٹن کی سوانح عمری ’ایڈوینا ماؤنٹ بیٹن اے لائف آف ہر اون‘ کی مصنفہ جینیٹ مورگن لکھتی ہیں ’5 فروری 1960 کو انڈونیشیا کے شہر بورنیو میں ایڈوینا کا دورانِ نیند انتقال ہو گیا۔ سونے سے قبل وہ نہرو کے خطوط کو دوبارہ پڑھ رہی تھیں جو سوتے ہوئے ان کے ہاتھ سے چھوٹ کر زمین پر گر گئے تھے۔‘

جواہر لال نہرو

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشنتین مورتی بھون

مردولا سارابھائی سے نہرو کی قربت

پنڈت نہرو کی اہلیہ کملا نہرو کی سنہ 1936 میں وفات کے بعد نہرو کئی خواتین کے قریب رہے۔ ان میں سے ایک تھیں خلائی سائنسدان وکرم سارابھائی کی بہن مردولا سارابھائی۔

سنہ 1911 میں پیدا ہونے والی مردولا سارابھائی اپنی خود نوشت ’دا وائس آف دا ہارٹ‘ میں لکھتی ہیں کہ نہرو سے ان کی پہلی ملاقات چنئی میں ہوئی تھی جب وہ ان کے گھر ڈنر پر آئے تھے۔

مردولا نے اپنے بال کٹوا دیے تھے۔ وہ نہ تو کوئی میک اپ استعمال کرتی تھیں اور نہ ہی کوئی زیور پہنتی تھیں۔

سنہ 1946 میں نہرو نے انھیں کانگریس پارٹی کا جنرل سیکریٹری بنایا تھا۔ ان کی نہرو سے محبت کا عالم یہ تھا کہ جب نہرو ریاستوں کے دورے پر جاتے تھے تو وہ وہاں کے وزیر اعلیٰ اور سیکریٹریوں کو خط لکھ کر ان کے لیے کیے گئے حفاظتی انتظامات کے بارے میں احکامات جاری کرتی تھیں۔

جواہر لال نہرو

،تصویر کا ذریعہGetty Images

پدمجا نائیڈو سے بھی نہرو کے گہرے تعلقات تھے

سروجنی نائیڈو کی بیٹی پدمجا نائیڈو سے بھی نہرو قریب تھے۔ ان کا جنم 1900 میں ہوا تھا۔ 2 مارچ 1938 کو پدمجا کو لکھنؤ سے لکھے گئے ایک خط میں نہرو نے لکھا تھا 'تم کو دیکھ کر اچھا لگا۔ اور کم سن ہوتی جاؤ تاکہ جو لوگ بوڑھے ہو رہے ہیں ان کی کمی پوری کرسکو۔‘

پدمجا کو بھیجے ایک ٹیلی گرام کے جواب میں نہرو نے لکھا تھا ' تمہارا ٹیلی گرام موصول ہوا۔ کتنا بے وقوفی بھرا اور بالکل خواتین جیسا۔ شاید یہ سوبھاش کے ساتھ عشق کرنے کا کفارہ ادار کررہی ہو (سیلیکٹیڈ ورکس آف جواہر لال نہرو جلد 13)۔ سینیئر صحافی ایم جے اکبر نہرو کی سوانح عمری میں لکھتے ہیں کہ انڈیا کی آزادی کے دو ہیرو سیاست کے علاوہ دوسرے شعبوں میں مقابلہ کررہے تھے۔

یہ بھی پڑھیے

پدمجا نائڈو

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشناپنی والدہ سروجنی نائیڈو کے ساتھ پدمجا نائیڈو

پدمجا کو ایڈوینا سے حسد

18 نومبر 1937 کو لکھے گئے ایک اور خط میں نے نہرو نے پدمجا سے پوچھا کہ ’تمہاری عمر کیا ہے؟ 20؟‘

شاید نہرو مذاق کررہے تھے کیونکہ پدماجا سنہ 1900 میں پیدا ہوئی تھیں۔ اور اس وقت ان کی عمر 37 برس تھی۔

انھوں نے ایک اور خط میں پدمجا کو مشورہ دیا تھا کہ وہ جب بھی انھیں خط لکھیں تو اس پر ذاتی تحریر کر دیں تاکہ ان کا سیکریٹری اس خط کو نہ کھولے۔

متھائی اپنی کتاب میں لکھتے ہیں ’پدمجا جب بھی نہرو کے الہ آباد میں واقع ان کے گھر آنند بھون یا دلی کے تین مورتی والی رہائش پر آتیں تو نہرو کے بغل والے کمرے میں رکنے کا اسرار کرتیں۔‘

وہ مزید لکھتے ہیں ’وہ ہمیشہ بہت گہرے گلے والا بلاؤز پہنتی تھیں۔ ایک بار جب نہرو کی خواب گاہ میں انھوں نے لیڈی ماؤنٹ بیٹن کی دو تصاویر دیکھیں تو برداشت نہیں کرپائیں۔ انھوں نے بھی اس کمرے کے آتش دان کے اوپر اپنی تصویر آویزاں کر دی جہاں لیٹے ہوئے نہرو کی نظر اس پر پڑتی رہے۔ لیکن جیسے ہی پدمجا گئیں انھوں نے وہ تصویر اتروا کر سٹور میں رکھوا دی۔‘

متھائی ایک اور ایسے ہی قصے کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’پدمجا کو اس سے اتنی حسد ہوئی کہ انھوں نے خود کو ایک کمرے میں بند کرلیا اور ایڈوینا سے ملاقات کرنے سے صاف انکار کردیا۔ بعد میں نہرو نے پدمجا کو مغربی بنگال کا گورنر بنا دیا اور وہ ایک دہائی سے زائد اسی عہدے پر فائز رہیں۔‘

جواہر لال نہرو

،تصویر کا ذریعہGetty Images

شردھا ماتا اور نہرو

متھائی نے اپنے کتاب میں بنارس کی ایک اور خوبصورت خاتون کا ذکر کیا جو خود کو راہبہ اور شردھا ماتا کہتی تھیں۔

متھائی کا الزام ہے کہ اس خاتون نے 1948 میں نہرو کو اپنی طرف راغب کیا۔

1979 میں مشہور صحافی خوشونت سنگھ کو ’نیو ڈہلی‘ میگزین کے لیے دیے ایک انٹریو میں شردھا ماتا نے نہرو کے ساتھ کسی بھی طرح کے جسمانی تعلق کی زبردست مذمت کی لیکن یہ ضرور قبول کیا کہ نہرو سے ان کی ملاقاتیں ہوتی رہیں تھیں اور وہ ان سے بے حد متاثرتھے۔

انھوں نے یہ بھی اعتراف کیا کہ نہرو کے دل میں کبھی بھی دوسری شادی کی بات آئی ہوتی تو انہوں نے ان سے شادی کرلی ہوتی۔

جواہر لال نہرو

،تصویر کا ذریعہGetty Images

ایئر کنڈیشنر سے نفرت

نہرو کو ایئر کنڈیشنر سے بہت نفرت تھی۔ وہ نہ تو اسے خواب گاہ میں استعمال کرتے تھے اور نہ ہی اپنے دفتر میں۔ گرمی کے دوران وہ رات میں برآمدے میں سونا پسند کرتے تھے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ انہیں مٹی کی خوشبو بہت پسند تھی۔

موسم گرما میں نہرو کے سٹڈی میں ایئر کنڈیشنر استعمال ہوتا تھا جہاں وہ دیر رات تک کام کرتے تھے۔

متھائی لکھتے ہیں ’ایک بار جب وہ بیرون ملک گئے تھے تو ان کے پیچھے ان کے کمرے میں ائیر کنڈیشنر لگا دیا گیا لیکن انہوں نے کبھی اس کا استعمال نہیں کیا۔‘

متھائی لکھتے ہیں ’دوپہر میں ان کے گھر آنے سے دو گھنٹے پہلے ہم ایئر کنڈیشنر چلوا دیا کرتے تھے۔ جیسے ہی ان کی کار گیٹ پر پہنچتی تھی، ایئر کنڈیشنر بند کردیا جاتا تھا۔ دوپہر کے کھانے کے بعد وہ کچھ دیر تک اپنی خواب گاہ میں آرام کرتے تھے لیکن اس دوران ایئر کنڈیشنر ہمیشہ بند رہتا تھا۔‘

جواہر لال نہرو

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشنپاکستان کے صدر ایوب خان سے ملاقات کے وقت انڈین وزیر اعظم لال بہادر شاستری نے وہی اوور کوٹ پہنا تھا جو انہیں جواہر لال نہرو نے دیا

ہاتھی کے دانت والا ڈنڈا

نہرو کو اکثر ہاتھی کے دانت سے بنے ہینڈل والے صندل کی لکڑی کے ایک ڈنڈے کو اپنے ہاتھ میں لیے دیکھا جاتا۔

ایک بار جب ان سے اس بارے میں سوال پوچھا گیا تو انھوں نے کہا کہ میں اپنے اعصاب پر قابو رکھنے کے لیے اس ڈنڈے کا استعمال کرتا ہوں۔ انھیں کام کرتے ہوئے ہمیشہ کسی چيز کو پکڑنے کی عادت تھی۔

ایک بار انھوں نے کہا تھا کہ اگر ان کے پاس یہ ڈنڈہ نہیں ہو گا تو وہ رومال کا رول بنا کر اسے اپنی مٹھی میں سختی سے پکڑ لیں گے۔

ان کا کسی شخص کے لیے اظہار محبت کا یہ طریقہ تھا کہ وہ اسے اپنی استعمال شدہ چیز دیا کرتے تھے۔ انھوں نے متعدد لوگوں کو اپنی استعمال شدہ ٹوپی، قمیض، چپلیں اورجوتے تحائف کے طورپر دیے ہیں۔

لال بہادر شاستری کو انھوں نے اپنا استعمال شدہ اووکورٹ دیا تھا۔ تاشقند میں پاکستان کے صدر ایوب خان سے ملاقات کے وقت لال بہادر شاستری نے وہی اوورکوٹ پہنا تھا۔

یہ بھی پڑھیے

جواہر لال نہرو

،تصویر کا ذریعہGetty Images

دلوں کے بادشاہ

نہرو کے پرانے درزی عمر نے ایک بار ان سے فرمائش کی تھی کہ وہ انھیں ایک سرٹیفکیٹ دے دیں۔ نہرو اس بات سے واقف تھے کہ عمر نے ایران کے شاہ اور سعودی عرب کے بادشاہ کے کپڑے بنائے تھے۔ ان دونوں نے بھی ان کی تعریف میں خطوط لکھے تھیں۔

محمد یونس اپنی کتاب ’پرسنس، پیشنس، اور پولیٹکس‘ میں لکھتے ہیں نہرو نے اپنے درزی سے مذاق کیا ’آپ کو میرے سرٹیفکیٹ کی کیا ضرورت؟ آپ کو تو بادشاہوں کے سرٹیفکیٹ مل چکے ہیں۔‘

درزی نے کہا ’لیکن آپ بھی تو بادشاہ ہیں۔‘

نہرو بولے ’مجھے بادشاہ مت کہیے۔ بادشاہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو لوگوں کے سر کٹوا دیتے ہیں۔‘

عمر نے تب ایک زبردست بات کہی ’وہ تخت پر بیٹھنے والے بادشاہ ہیں، آپ تو دلوں کے بادشاہ ہیں۔ آپ کا ان سے کیا مقابلہ۔‘

نوٹ: یہ تحریر پہلی بار بی بی سی اردو پر 14 نومبر 2019 کو شائع کی گئی تھی۔