شمسی توانائی والی کاروں کی دوڑ کا جنون

سولر اٹاکاما ریلی نامی یہ گاڑیوں کی ریس ان ریسوں میں سے ایک ہے جو گزشتہ چند سالوں میں ہوئی ہیں

،تصویر کا ذریعہBBC World Service

،تصویر کا کیپشنسولر اٹاکاما ریلی نامی یہ گاڑیوں کی ریس ان ریسوں میں سے ایک ہے جو گزشتہ چند سالوں میں ہوئی ہیں

شمسی توانائی سے چلنے والی گاڑیوں کی ریسنگ کا جنون بڑھتا جا رہا ہے لیکن یہ جنون کہیں اور نہیں چلی کے اٹاکاما صحرا میں بڑھ رہا ہے۔

کار ریسنگ چاہے وہ فارمولہ ون ہو یا کسی جنگل میں ہو رہی ہو ماحولیاتی آلودگی کا باعث ہوتی ہے۔ لیکن چلی میں اس ہفتے بیس ٹیمیں ایک ریلی میں حصہ لے رہی ہیں جن کی گاڑیاں شمسی توانائی پر چلتی ہیں۔

سولر اٹاکاما ریلی نامی یہ گاڑیوں کی ریس ان ریسوں میں سے ایک ہے جو گزشتہ چند سالوں میں ہوئی ہیں۔

نارتھ امیریکن سولر چیلنج کے ڈائریکٹر اور اس ریس کے جج ڈین ایبرلے کا کہنا ہے ’شمسی توانائی سے چلنے والی گاڑیوں کی ریس بہت زیادہ منعقد ہو رہی ہیں۔ یہ ریس آسٹریلیا، ابو ظہبی، جنوبی افریقہ، مراکش، قبرص اور ترکی میں ہوتی ہیں اور اب چلی میں ہو رہی ہے۔‘

اس ریلی میں اٹاکاما صحرا میں 1400 کلو میٹر طویل ٹریک مکمل کرنا ہے۔ یہ وہ علاقہ ہے جہاں شمسی توانائی سب سے زیادہ ہوتی ہے۔

اس ریس کے راستے میں آتش فشاں اور برفیلی چٹانیں ہیں۔

روایتی ریسوں کے برعکس اس ریس میں ڈرائیور ان راستوں سے گزریں گے جہاں آبادی ہے اور دیگر افراد گاڑیوں میں جا رہے ہوں گے۔

اس ریس میں سب سے تیز رفتار 140 کلو میٹر فی گھنٹہ ہے لیکن جب عام سڑکوں پر ڈرائیوروں کو حد رفتار کا احترام کرنا ہو گا۔

اس ریلی میں اٹاکاما صحرا میں 1400 کلو میٹر طویل ٹریک مکمل کرنا ہے۔ یہ وہ علاقہ ہے جہاں شمسی توانائی سب سے زیادہ ہوتی ہے

،تصویر کا ذریعہBBC World Service

،تصویر کا کیپشناس ریلی میں اٹاکاما صحرا میں 1400 کلو میٹر طویل ٹریک مکمل کرنا ہے۔ یہ وہ علاقہ ہے جہاں شمسی توانائی سب سے زیادہ ہوتی ہے

جاپان کی ٹوکائی یونیورسٹی کی ٹیم کے سعودی عرب سے تعلق رکھنے والے ڈرائیور عبدالرحمان الخطیب نے کہا ’شمسی توانائی سے چلنے والی گاڑیوں کے لیے چلی بہترین ملک ہے اور اسی لیے ہم ادھر آئے ہیں۔ ہم اپنی گاڑی کے کارنامے افریقہ اور آسٹریلیا میں دکھا چکے ہیں اور اب ہم اس گاڑی کو جنوبی امریکہ میں دکھانے آئے ہیں۔‘

ان کا مزید کہنا ہے کہ اس گاڑی کو چلانا ایک عام گاڑی کو چلانے سے بالکل مختلف ہے۔ ’اس گاڑی میں پاور سٹیئرنگ نہیں ہے اور یہ گاڑی اتنی ہلکی ہے کہ تیز ہوا کا جھونکا اس کو الٹ سکتا ہے۔‘

شمسی توانائی سے چلنے والی گاڑیوں کی ٹیکنالوجی میں بہت بہتری آئی ہے۔

نارتھ امیریکن سولر چیلنج کے ڈائریکٹر ڈین ایبرلے کا کہنا ہے ’میں نے جس پہلی گاڑی کی تعمیر میں مدد کی اس کی حد رفتار 24 کلومیٹر فی گھنٹہ تھی اور وہ بھی اس وقت جب سورج سوا نیزے پر ہو۔ لیکن اب کچھ گاڑیوں کی حد رفتار 100 کلومیٹر فی گھنٹہ تک ہو گئی ہے۔‘

اس ریس میں سب سے تیز رفتار 140 کلو میٹر فی گھنٹہ ہے لیکن جب عام سڑکوں پر ڈرائیوروں کو حد رفتار کا احترام کرنا ہو گا

،تصویر کا ذریعہBBC World Service

،تصویر کا کیپشناس ریس میں سب سے تیز رفتار 140 کلو میٹر فی گھنٹہ ہے لیکن جب عام سڑکوں پر ڈرائیوروں کو حد رفتار کا احترام کرنا ہو گا

ان کا مزید کہنا ہے ’اس کی وج�� یہ ہے کہ شمسی خلیوں میں بہتری آئی ہے۔‘

آسٹریلیا میں ہونے والے ورلڈ سولر چیلنج کے ڈائریکٹر کرس سیلوُڈ کا کہنا ہے کہ شمسی توانائی سے چلنے والی گاڑیوں میں جو بیٹریاں استعمال ہوتی ہیں ان کا وزن بھی کم کردیا گیا ہے اور گاڑی کا اپنا وزن بھی کم کیا گیا ہے۔

ٹیکنالوجی میں جدت کے باعث گاڑیوں کا مستقبل کیا ہے؟ کیا ہم نے مستقبل میں اپنی گاڑیوں پر شمسی توانائی کے پینل نصب کیے ہوں گے؟

’میں نے جس پہلی گاڑی کی تعمیر میں مدد کی اس کی حد رفتار 24 کلومیٹر فی گھنٹہ تھی اور وہ بھی اس وقت جب سورج سوا نیزے پر ہو۔ لیکن اب کچھ گاڑیوں کی حد رفتار 100 کلومیٹر فی گھنٹہ تک ہو گئی ہے۔‘

،تصویر کا ذریعہBBC World Service

،تصویر کا کیپشن’میں نے جس پہلی گاڑی کی تعمیر میں مدد کی اس کی حد رفتار 24 کلومیٹر فی گھنٹہ تھی اور وہ بھی اس وقت جب سورج سوا نیزے پر ہو۔ لیکن اب کچھ گاڑیوں کی حد رفتار 100 کلومیٹر فی گھنٹہ تک ہو گئی ہے۔‘

مبصرین کا کہنا ہے کہ ایسا نہیں ہوگا کیونکہ لوگ زیادہ انحصار بجلی سے چلنے والی گاڑیوں پر کریں گے۔