موسمیاتی تبدیلی: کیا گھریلو باغیچے یعنی کچن گارڈن ہی انسانی بقا کے ضامن ہیں؟

باغ

،تصویر کا ذریعہFAARM project

    • مصنف, کیرولن پارکنسن
    • عہدہ, ہیلتھ ایڈیٹر، بی بی سی نیوز

گھر کے باغیچے میں پھل اور سبزیاں اگانا پہلے ہی ماحول دوست سمجھا جاتا ہے لیکن موسمیاتی تبدیلی کے خلاف جنگ میں یہ ایک ہتھیار بھی بن سکتا ہے۔

بنگلہ دیشی کمیونٹی کو یہ تجربہ تب ہوا جب چاولوں کی فصل، جو ان کی خوراک اور آمدنی کا ذریعہ تھی، موسمی بارش کے جلدی آجانے سے برباد ہو گئی۔

جس بارش کو دو ماہ بعد آنا تھا اس نے اپریل 2017 میں وقت سے پہلے آ کر سلہٹ ڈویژن کے شمال مشرقی کھیتوں میں چاول کی ساری فصل برباد کر دی۔

کسانوں کی زیادہ تر یا پوری فصلیں اس سیلاب کی نذر ہو گئیں۔ اس کا مطلب تھا کہ ان کے خاندانوں کے لیے کوئی آمدنی نہیں رہی اور نہ کھانے کو کچھ بچا۔

یہ بھی پڑھیے

سائنس دانوں نے متنبہ کیا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی فصلوں اور ان میں موجود غذائی اجزا کو متاثر کر رہی ہے۔

پوٹس ڈیم انسٹی ٹیوٹ فار کلائمیٹ امپیکٹ ریسرچ کی پروفیسر سبائن گیبریش کہتی ہیں ’یہ بہت غیر منصفانہ ہے کیونکہ موسمیاتی تبدیلی میں ان لوگوں کا کوئی کردار نہیں ہے۔‘

نوبل فاؤنڈیشن کے زیرِ اہتمام برلن میں صحت اور آب و ہوا کے ماہرین کی ایک کانفرنس میں بی بی سی سے بات کرتے ہوئے پروفیسر گیبریش کا کہنا تھا ’موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے وہ لوگ بہت متاثر ہوئے ہیں کیونکہ اس صورت میں وہ اپنا ذریعہ معاش اور غذائی اجزا سے محروم ہو جاتے ہیں۔‘

’اور ان کے بچے سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں کیونکہ وہ تیزی سے بڑھ رہے ہیں اور انھیں زیادہ سے زیادہ غذائی اجزا کی ضرورت پڑتی ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ جلدی آنے والی بارشوں سے قبل ہی ایک تہائی خواتین اور 40 فیصد بچے غذائیت کی کمی کا شکار تھے۔

پروفیسر گیبریش کا مزید کہنا تھا ’یہ لوگ پہلے ہی بہت سی بیماریوں سے لڑتے بمشکل زندگی گزار رہے ہیں۔ ان کے پاس کچھ بھی نہیں ہے۔ کوئی انشورنس تک نہیں ہے۔‘

باغ

،تصویر کا ذریعہGetty Images

وہ سلہٹ ڈویژن میں آنے والے سیلاب کے اثرات پر ایک تحقیق کی رہنمائی کررہی ہیں اور وہاں کے دیہات کی 2000 سے زیادہ خواتین کے ساتھ مل کر کام کر رہی ہیں۔

ان خواتین میں سے نصف نے بتایا کہ ان کے خاندان سیلاب سے بہت متاثر ہوئے ہیں۔ انھوں نے ایسے سرمایہ داروں جو سود کی زیادہ شرح وصول کرتے تھے سے قرض لے کر مشکلات سے نمٹنے کی کوشش کی۔ اس سے ان کے خاندان قرضوں میں ڈوب گئے۔

ٹیم نے کمیونٹی کو اس بات کی تعلیم دینا شروع کی ہے کہ وہ اپنے گھر کے باغات میں اونچی زمین پر زیادہ سے زیادہ مختلف اقسام کے پھل اور سبزیاں اگائیں اور مرغیاں رکھیں۔

پروفیسر گیبریش کہتی ہیں ’یہ ان کے چاولوں کی فصل کے خسارے کی تلافی تو نہیں کر سکتا کیونکہ یہ ان کا ذریعہِ آمدن تھا۔ لیکن کم از کم اس طرح ان کی کسی حد تک مدد ہو جائے گی۔‘

لیکن موسمیاتی تبدیلی کا مطلب ہے کہ ترقی پذیر ممالک کے لوگ چاولوں کے ساتھ جن دیگر نشاستہ دار غذاؤں پر انحصار کرتے ہیں، اب ان میں پہلے جسی غذائیت نہیں رہی۔

واشنگٹن یونیورسٹی کے عالمی صحت کے شعبے سے تعلق رکھنے والی پروفیسر کرسٹی ایبی نے غذائی اجزا کی سطحوں پر تحقیق کی ہے۔

اس تحقیق کے دوران انھیں معلوم ہوا کہ چاول، گندم، آلو اور جو کی فصلوں میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار اب زیادہ ہو گئی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ انھیں اگنے کے لیے کم پانی کی ضرورت ہے، جو اتنی اچھی بات نہیں جتنی یہ سننے میں لگ رہی ہے۔ کیونکہ اس کا مطلب ہے کہ وہ مٹی سے کم سے کم مائیکرو نیو ٹرینٹ (پودوں کی نشو و نما کے لیے درکار غذائی مادہ) اٹھاتے ہیں۔

سیلاب

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشنچاولوں کا کھیت (فائل فوٹو)

بڑھتی ہوئی بیماریاں

پروفیسر ایبی کی ٹیم کی تحقیق سے یہ بھی پتا چلا کہ چاول کی فصل میں پائے جانے والے وٹامنز کی مقدار میں اوسطاً 30 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔اس میں فولک ایسڈ بھی شامل ہے جو حاملہ خواتین کے لیے ضروری ہے۔

وہ کہتی ہیں ’آج بھی بنگلہ دیش میں چار میں سے تین کیلوریز چاولوں سے آتی ہیں۔‘

’بہت سے ممالک میں لوگ اپنی غذا کے اہم جزو کے طور پر بہت سے نشاستے کھاتے ہیں۔ اس لیے ان کی غذا میں مائیکرو نیو ٹرینٹ کی مقدار کم ہونے کے خطرناک نتائج ہو سکتے ہیں۔‘

انھوں نے متنبہ کیا کہ گرم موسم میں بیماریاں زیادہ پھیلتی ہیں۔ اور زیادہ خطرناک وہ بیماریاں ہیں جو مچھروں کے ذریعے پھیلتی ہیں۔ اس کے علاوہ متعدی اور دست سے لگنی والی بیماریاں بھی خطرناک ہیں۔

’جیسے جیسے ہمارے سیارے پر گرمی بڑھ رہی ہے، یہ بیماریاں اپنی جغرافیائی حدود تبدیل کر رہی ہیں۔ جن موسموں میں یہ بیماریاں پھیلتی ہیں وہ طویل ہوتے جارہے ہیں۔ اس طرح یہ دور دور کے لوگوں تک منتقل ہو رہی ہیں۔‘

’اور ان میں سے زیادہ تر بیماریاں بچوں کو متاثر کر رہی ہیں۔ اسی لیے ہم زچہ و بچہ کی صحت کے لیے زیادہ فکر مند ہیں کیونکہ وہ سب سے زیادہ تکلیف میں ہیں۔ اور یہی بچے اور مائیں موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے سب سے زیادہ متاثر ہیں۔‘

وہ بیماریاں جو عام طور پر گرم خطوں میں پائی جاتی تھیں اب شمالی علاقوں کی طرف بڑھ رہی ہیں۔

باغ

،تصویر کا ذریعہFAARM project

اس سال جرمنی میں ویسٹ نائل وائرس کا پہلا کیس سامنے آیا ہے۔ یہ بیماری مچھروں کے ذریعے پھیلتی ہے۔

سبین گیبریش کا کہنا تھا ’متعدی بیماریوں کے پھیلنے سے لوگوں کو احساس ہوتا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی انھیں بھی متاثر کرے گی۔‘

نوبل انعام یافتہ پیٹر آگرے نے متنبہ کیا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی کا مطلب ہے کہ بیماریاں مسلسل جگہیں تبدیل کر رہی ہیں۔ ایسی جگہیں جہاں پر وہ پہلے کبھی نہیں دیکھی گئیں اور کچھ بالکل نئے مقامات پر بھی پھیلتی نظر آرہی ہیں۔ خاص طور پر درجہ حرارت میں اضافے کے ساتھ اونچے مقامات کی طرف، جیسا کہ جنوبی امریکہ اور افریقہ، میں یہ دیکھا گیا ہے۔

یہ اس لیے بھی اہم ہے کیونکہ عام طور پر گرم علاقوں میں رہنے والے لوگ بیماریوں سے بچنے کے لیے ہی اونچے مقامات کا رخ کرتے ہیں۔

پروفیسر آگرے، جنھیں 2003 میں کیمسٹری کے نوبل انعام سے نوازا گیا تھا، نے خبردار کیا ہے کہ کوئی کسی خوش فہمی میں نہ رہے ’جیسے جیسے درجہ حرارت بڑھے گا بیماریاں بھی بڑھتی جائیں گی۔‘

’وہ مشہور کہاوت ہے ��ا کہ اگر سوچا جائے کہ ایسا کبھی نہیں ہوسکتا تو وہ ضرور ہو سکتا ہے۔‘