جب گھر مسمار ہونے پر سابق انڈین فوجی نے اپنی زمین کشمیری شخص کو دے دی

کشمیر

،تصویر کا ذریعہMajid Jahangir

،تصویر کا کیپشنوزیرِ اعلیٰ عمر عبداللہ نے الزام عائد کیا ہے کہ یہ کارروائی لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا کے احکامات پر کی گئی
    • مصنف, ماجد جہانگیر
    • عہدہ, بی بی سی نیوز

انڈیا کے زیرِ انتظام جموں و کشمیر میں ایک صحافی کا گھر مسمار کرنے کی حکومتی کارروائی خبروں میں ہے اور وزیرِ اعلیٰ عمر عبداللہ نے الزام عائد کیا ہے کہ یہ کارروائی لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا کے احکامات پر کی گئی۔

بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے لیفٹیننٹ گورنر کا دفاع کیا اور کہا ہے کہ صحافی کا گھر مسمار کرنے کی کارروائی ان کے احکامات پر نہیں کی گئی۔

گھر مسمار کرنے کا واقعہ لوگوں کی نظر میں تب آیا جب اس حکومتی کارروائی پر خود صحافی ارفاز احمد ڈانگ نے براہِ راست رپورٹنگ کی۔

جموں ڈویلپمنٹ اتھارٹی (جے ڈی اے) کا دعویٰ ہے کہ یہ گھر حکومتی زمین پر بنایا گیا تھا اور اس کو قانون کے مطابق مسمار کیا گیا تاہم صحافی ارفاز کا کہنا ہے کہ انھیں گھر مسمار کرنے سے قبل کوئی نوٹس نہیں دیا گیا اور نہ ہی انھیں اپنا سامان بچانے کا موقع دیا گیا۔

تاہم صحافی اور ان کے اہلخانہ کو بے گھر ہوتا دیکھ کہ ایک سابق انڈین فوجی اور ہندو شہری کُلدیپ شرما نے ارفاز کو اپنا ذاتی پلاٹ تحفے میں دے دیا۔

ارفاز گھر مسمار ہونے پر کیا کہتے ہیں؟

ارفاز ’سحر نیوز انڈیا‘ نامی سوشل میڈیا چینل چلاتے ہیں اور ان کا دعویٰ کہ عام لوگوں کی ترجمانی کرنے پر انھیں سزا دی جا رہی ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’ہم گذشتہ 40 برس سے یہاں مقیم ہیں۔ ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ کوئی بھی نوٹس دیے بنا مقامی انتظامیہ، جے ڈی اے کے حکام اور پولیس یہاں آجائیں اور گھر توڑنا شروع کردیں۔‘

’میں ان سے کہتا رہا کہ مجھے نوٹس یا تحریری آرڈر دکھا دیں لیکن حکام نے مجھے بتایا کہ انھیں گھر مسمار کرنے کے زبانی احکامات ملے ہیں۔‘

کشمیر

،تصویر کا ذریعہMajid Jahangir

،تصویر کا کیپشنارفاز ’سحر نیوز انڈیا‘ نامی سوشل میڈیا چینل چلاتے ہیں

تاہم اس کارروائی سے کچھ روز قبل ارفاز احمد کو ایک نوٹس موصول ہوا تھا اور انھوں اس کے جواب میں کہا تھا کہ یہ گھر ان کی نہیں بلکہ ان کے والد کی ملکیت ہے۔

صحافی کہتے ہیں کہ ’نوٹس میرے نام پر آیا جبکہ پراپرٹی میرے نام پر ہے ہی نہیں۔‘

’جو بھی ہوا اس کا تعلق میرے کام اور میری خبروں سے ہے۔‘

اس معاملے پر حکومت کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر کے وزیرِ اعلیٰ اس واقعے کو حکومت کو بدنام کرنے کی سازش قرار دے رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ’منتخب حکومت کی اجازت کے بغیر، متعلقہ وزارت سے پوچھے بغیر گورنر ہاؤس کے مقرر کردہ حکام اپنی مرضی سے بلڈوزر کا استعمال کرتے ہیں۔‘

’اسے منتخب حکومت کو بدنام کرنے کی سفارش سمجھا جائے گا۔ اس لیے ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ اس محکمے میں سٹاف کی تقرری ہمیں کرنے دی جائے۔‘

تاہم جہاں اس واقعے پر افسوس کا اظہار کیا جا رہا ہے وہیں جموں کے علاقے میں ایک سابق انڈین فوجی اور ہندو شہری کو ارفاز کے ساتھ کھڑے ہونے پر سراہا بھی جا رہا ہے۔

’ہم اپنے بھائی کی کمر نہیں ٹوٹنے دیں گے‘

سابق انڈین فوجی اور ہندو شہری کلدیپ شرما کا ارفاز کا گھر مسمار ہونے پر کہنا ہے کہ ’جب میں نے یہ منظر دیکھا کہ میرے ایک بھائی کا گھر توڑا جا رہا ہے، ایک چھوٹا بچہ رو رہا ہے اور ان کے والدین بھی سڑک پر آ چکے ہیں تو مجھے اپنے والدین یاد آگئے اور میری آنکھوں میں آنسو آ گئے۔‘

’میں یہ مناظر اپنی چھوٹی بیٹی کے ساتھ دیکھ رہا تھا۔ اس نے مجھے گلے لگایا اور رونے لگی۔ ہم نے فیصلہ کیا کہ چاہے کچھ بھی ہو جائے ہم اپنے ایک بھائی کی کمر نہیں ٹوٹنے دیں گے۔‘

کلدیپ کہتے ہیں کہ انھوں نے فوراً ہی اپنی زمین کی رجسٹری نکالی اور ارفاز کو دے دی۔

کئی لوگ یہ بات بھی کر رہے ہیں کہ ایک ہندو گھرانے نے مسلمان گھرانے کو زمین دی تاہم کلدیپ کی بیٹی تانیا کہتی ہیں کہ ان باتوں پر انھیں افسوس ہے۔

’میں افسردہ ہوں کہ لوگ کہہ رہے ہیں کہ ایک ہندو نے اپنی زمین دے دی، مجھے یہ پسند نہیں۔‘

’سب سے اہم چیز انسانیت ہے اور اس کی کوئی حد نہیں۔ نہ کوئی ہندو ہے، نہ کوئی مسلمان اور نہ ہی کوئی مسیحی۔‘

’اس سے بہتر کوئی پیغام نہیں‘

گھر مسمار ہونے کے بعد ارفاز کا خاندان کھلے آسمان تلے رہنے پر مجبور ہے۔ ان کی والدہ بار بار اپنے مسمار شدہ مکان کو دیکھتی ہیں اور بالکل خاموش ہو چکی ہیں۔

صبح و شام کئی لوگ ان کے پاس آتے ہیں اور خاندان کو کھانے پینے کی اشیا دے جاتے ہیں۔

کشمیر

،تصویر کا ذریعہMajid Jahangir

،تصویر کا کیپشنکلدیپ کہتے ہیں کہ انھوں نے فوراً ہی اپنی زمین کی رجسٹری نکالی اور ارفاز کو دے دی

تاہم یہ سب ہونے کے باوجود بھی ارفاز کلدیپ شرما کے شکرگزار نظر آتے ہیں۔

’ایک مسلمان خاندان کا گھر مسمار کر دیا گیا اور ایک ہندو خاندان کا فرد کہتا ہے کہ میں اپنی زمین ارفاز کو دے رہا ہوں۔‘

’ہندو، مسلمان، سکھ، مسیحی سب بھائی ہیں، اس سے زیادہ بہتر پیغام کوئی نہیں ہو سکتا۔‘