’میرے چاروں طرف لہراتی تلواروں کا سمندر تھا‘

وزیرہ بیگم

،تصویر کا ذریعہVazeera Begum

،تصویر کا کیپشنتقسیم کے وقت وزیرہ بیگم کی عمر 15 برس تھی۔
    • مصنف, عالیہ نازکی
    • عہدہ, بی بی سی اردو، جموں

’میں وہ دن کبھی نہیں بھول سکتی۔ میں نے اپنی تین ماہ کی بچی کو سینے سے لگا رکھا تھا۔ ہمارے چاروں طرف لہراتی تلواریں اٹھائے لوگوں کا سمندر تھا۔ میں نے سوچا کہ پہلے میں مروں گی، پھر میری بچی۔ اچانک ایک تلوار پورے زور کے ساتھ میرے سر پر لگی۔‘

میں وزیرہ بیگم سے جموں شہر میں، ان کی اسی بیٹی کے گھر پر ملی، جسے تقسیم کے بعد ہونے والے فسادات میں انھوں نے سینے سے لگا رکھا تھا۔ 85 سالہ وزیرہ بیگم کا جسم ان کا ساتھ بھلے ہی نہ دے رہا ہو، مگر ان کا ذہن آج بھی تیز اور پختہ ہے۔ ان کی آنکھوں میں چمک ہے اور ان کی ہنسی ان کے پورے چہرے کو روشن کر دیتی ہے۔

ماں بیٹی دونوں کی جان ان پر گرنے والی دوسری لاشوں کی وجہ سے بچ تو گئی لیکن جو تلوار وزیرہ بیگم کے سر پر لگی تھی اس کا گہرا نشان آج بھی ان کے مہندی لگے بالوں میں چھپا ہے۔

بی بی سی اردو کی خصوصی سیریز 'تقسیم کے 70 برس' کے سلسلے میں وزیرہ بیگم نے اپنی کہانی ہمیں سنائی۔

1947 میں میری عمر 15 برس تھی۔ سال بھر پہلے میری شادی ہوئی تھی اور میری ایک تین ماہ کی بیٹی تھی۔ تقسیم کے بعد جب حالات خراب ہونے لگے تو اس وقت میں جموں میں اپنے میکے میں تھی۔

جموں شہر کے زیادہ تر مسلمان اپنا اپنا گھر چھوڑ کر مخصوص علاقوں میں اکٹھے ہو گئے تھے۔ ہم بھی پکے ڈنگے میں اپنی کوٹھی چھوڑ کر تالاب کھٹی کان آ گئے تھے جہاں ایک ایک گھر میں چار چار، پانچ پانچ خاندان رہ رہے تھے۔

ایک دن ہمارے علاقے میں اعلان کیا گیا کہ جو جو پاکستان جانا چاہتا ہے اسے پاکستان بھیج دیا جائے گا۔ ایک صندوق اور ایک بستر لے جانے کی اجازت ہے۔ نوجوان پیدل اور عورتوں اور بچوں کے لیے گاڑیوں کا انتظام ہے۔

وزیرہ بیگم

،تصویر کا ذریعہWazira Begum

،تصویر کا کیپشنوزیرہ بیگم کی عمر تقسیم کے وقت 15 سال تھی

سب لوگ تیار ہو گئے۔ کچھ نے چولہوں پر چڑھی روٹیاں چھوڑ دیں، کسی نے ایک بکس اٹھایا، کوئی ایسے ہی چل نکلا۔ میں، میری تین ماہ کی بچی، میرے نانا، والد، والدہ، بھائی بھی چل پڑے۔ عورتیں، بچے اور بزرگ گاڑیوں میں اور جوان مرد پیدل۔

جموں شہر سے نکلنے والی سڑک ستواری کے مقام پر بٹ جاتی ہے۔ دائیں طرف والی سیالکوٹ اور بائیں طرف والی سامبا اور پھر پٹھانکوٹ۔ کیونکہ ہمارا سیالکوٹ آنا جانا لگا رہتا تھا، اس لیے ہم لوگ راستوں سے واقف تھیں۔ جب گاڑی ستواری پہنچی تو اس نے دایاں نہیں بایاں راستہ پکڑا۔ اور ہم سمجھ گئے کہ ہم میں سے کوئی پاکستان نہیں جا رہا۔

کچھ فاصلے پر سڑک کے دونوں طرف لہراتی تلواریں اٹھائے لوگ نظر آنے لگے۔ اور گاڑی رک گئی۔ جو لوگ ہمیں وہاں تک لائے تھے وہ کہنے لگے کہ بس یہاں اتر جاؤ۔ پاکستان اب بہت قریب ہے، یہاں سے پیدل جانا پڑے گا۔ گاڑی سے نیچے اترتے ہی لہراتی تلواروں کے ایک سمندر نے ہمیں گھیر لیا۔

میرے نانا ہمارے ساتھ تھے۔ وہ پولیس میں تھے اور انھوں نے وہاں کچھ پولیس والوں کو کھڑا دیکھ کر ان سے مدد مانگی تو انھوں نے بدلے میں عورتوں کے زیور مانگے۔ زیور بھی گئے اور حملہ بھی نہیں رکا۔

وزیرہ بیگم کے سر پر تلوار کے گھاؤ کا نشان

،تصویر کا ذریعہWazira Begum

،تصویر کا کیپشنوزیرہ بیگم کے سر پر تلوار کے گھاؤ کا نشان آج بھی موجود ہے

میں نے اپنی بچی کو یہ سوچ کر سینے سے لگا لیا کہ پہلے میں مروں گی اور پھر میری بچی۔ چاروں طرف تلواریں، خون اور لاشیں۔ میرے سر پر ایک تلوار لگی، اور میں گر گئی۔ اور میرے اوپر اور لوگوں کی لاشیں گرتی رہیں۔۔ میری ماں، میرا چھوٹا بھائی، میرے نانا ۔ ۔ ۔ سب مارے گئے۔ میں اور میری بچی بچ گئیں۔

اگلے کچھ دن مجھے کچھ ہوش نہیں تھا۔ میں وہاں سے کیسے نکلی، ہمیں طبی امداد کیسے ملی۔ پھر پتہ چلا کہ ہمارے علاقے کے وہ سارے نوجوان جنھیں پیدل پاکستان جانے کے بہانے الگ کر لیا گیا تھا، وہ بھی مارے جا چکے تھے۔ لیکن کسی طرح تلواروں کے حملوں، اور شدید زخموں کے باوجود میرے ابو بچ گئے تھے۔

حالات بہت خراب تھے۔ اگلے تین چار ماہ تک میرے شوہر ہمیں ڈھونڈنے بھی نہیں آ سکے۔

تقسیم سے پہلے مذہب کے نام پر تفریق کے بارے میں ہم نے سوچا تک نہیں تھا۔ میری ساری سہیلیاں ہندو تھیں۔ ہم ایک دوسرے کے گھروں میں آتے جاتے، ایک دوسرے کی روٹی کھاتے تھے۔ لیکن اس کے بعد جو ہوا اس نے سب بدل دیا، سب تباہ کر دیا۔

ہمارے بزرگوں نے جب پہلے فسادات میں، مار کاٹ کی خبریں سنیں، تو انھوں نے انھیں سچ ماننے سے انکار کر دیا، یہ کہہ کر کہ کبھی انسان بھی انسان کو اس طرح مار سکتا ہے! ہم سب اسی دھوکے میں رہے، جب تک سب تباہ ہو گیا۔

وزیرہ بیگم
،تصویر کا کیپشنوزیرہ بیگم 12 سال تک ریاستی اسمبلی کی رکن رہیں

بہت برا وقت دیکھا ہے میں نے، لیکن اللہ کا کرم ہے کہ میں نے کبھی ہار نہیں مانی۔

حالات کچھ بہتر ہوئے تو میں اپنے گاؤں لوٹ گئی۔ جو کچھ میرے ساتھ بیتا، اس کے بعد کسی کا دکھ دیکھا نہیں جاتا تھا۔ لوگوں کی خدمت کا جذبہ تھا اور اپنے خاندان والوں کی حمایت حاصل تھی۔

اللہ کا شکر ہے کہ میں 12 سال تک اپنے علاقے کی سرپنچ رہی، اور پھر 12 سال تک ریاستی اسمبلی کی رکن۔

تقسیم کے زخم آج بھی جسم پر اور میرے دل میں باقی ہیں۔ لیکن ساتھ ہی وہ میں اللہ کی شکر گزار ہوں جس نے مجھے ایک لمبی، زندہ دل اور دوسروں کے لیے مفید زندگی گزارنے کی توفیق دی۔