کیا ٹیکنالوجی رش سے بچنے میں مددگار ہوگی

،تصویر کا ذریعہGetty
- مصنف, جین ویکفیلڈ
- عہدہ, ٹیکنالوجی رپورٹر
کیا آپ نہ ختم ہونے والے ٹریفک جام اور رش زدہ ٹرینوں سے تنگ آ چکے ہیں؟ تو اپنے ذاتی جیٹ پیک پر دفتر جانے کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے۔
نیوزی لینڈ کی ایک ’کمپنی مارٹن ائیر کرافٹ‘ ایک شخ�� کی سواری کے لیے ایک ایسا ہی جیٹ پیک تیار کررہی ہے جو سنہ 2016 میں فروخت کے لیے دستیاب ہو گا۔ اور ایسا لگتا ہے یہ کارآمد بھی ہوگا۔
تاحال اسے ایمرجنسی سروسز کے استعمال کے لیے مہیا کیا جائے گا۔
مارٹن ائیر کرافٹ کے چیف ایگزیکٹو پیٹر کوکر کا کہنا ہے ’اگلے پانچ سے دس برس میں اگر ہم روزانہ جیٹ پیکس کو یہاں وہاں اڑتا دیکھیں تو یہ اچنبھے کی بات نہیں ہوگی۔ بعض ممالک میں اس کا استعمال گاڑیوں کی جگہ ہوگا۔‘
حقیقت پسندی کی بات کریں تو ذاتی پروازیں اب بھی ہم سب کے لیے ایک ابہام ہی ہیں۔
پبلک ٹرانسپورٹ کے نظام میں تبدیلی

شہروں میں آبادی بڑھ رہی ہے ایسے میں ہمیں اپنی پبلک ٹرانسپورٹ کے نظام میں سنجیدہ تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔
بعض شہر بنیادی ڈھانچوں سے متعلق بڑے منصوبوں پر سرمایہ کاری کر رہے ہیں جیسے کے لندن کی ریل کا نظام، جبکہ دوسری ماحول دوست ٹرانسپورٹ جیسے کہ بجلی سے چلنے والی بسوں اور سائیکلوں پر غور کر رہے ہیں۔
ڈنمارک کے شہر کوپن ہیگن نے اپنے لیے ہدف مقرر کیا ہے کہ وہ سنہ 2025 میں دنیا کا پہلا ’ CO2-neutral ‘ دارالحکومت بنے گا۔ اس کے لیے یہاں پیرس، مڈریڈ، بارسلونا اور میکسیکو کی طرح سائیکل کے استعمال کی مہمیں متعارف کروائیں۔
End of سب سے زیادہ پڑھی جانے والی
کوپن ہیگن میں فراہم کی گئی سائیکلیوں کے ہینڈل میں ٹیبلٹ کمپیوٹر انسٹال ہیں، جس میں جی پی ایس موجود ہے۔ صارفین ان سائیکلوں کو اپنے سمارٹ فون کے ذریعے کرائے پر حاصل کر سکتے ہیں۔
دنیا کے بعض دوسرے شہروں میں حکام بجلی سے چلنے والے بسیں متعارف کروا رہے ہیں جن میں بنا تار کے چارجنگ ہوگی اور اس کے لیے خصوصی پلیٹ فارم بنائے جائیں گے۔
تاہم کئی لوگوں کا خیال ہے کہ بنیادی تبدیلی ٹرانسپورٹ کی نوعیت میں نہیں بلکہ اس کے طریقۂ استعمال میں مضمر ہے۔

برطانیہ میں حکومت کی جانب سے فراہم کردہ ٹرانسپورٹ سسٹم کے چیف ٹیکنالوجی افسر پال زینیلی کا کہنا ہے ’آج سے 10 یا 20 سال بعد ٹرانسپوٹ کے ذرائع نہیں بدلیں گے۔ ہم تب بھی بسیں، ٹیوبز اور ٹرینز استعمال کر رہے ہوں گے۔‘
’لیکن ٹرین سٹیشن کے باہر ایک گتے کا ٹکڑا خریدنے اور پھر سفر کے اختتام پر ٹیکسی کی تلاش کرنے کے بجائے یہ سب معاملات یکجا ہو چکے ہوں گے۔‘
ان کا خیال ہے کہ ہم کہیں جانے کا ارادہ کریں گے اور ایک ایپ تیز ترین اور سستے ترین طریقے سے ہمارے وہاں پہنچنے میں مدد کرے گی۔‘
’یہ ایپ آپ سے متعلق معلومات ، ٹریفک کے حالات اور موسم کے پیشِ نظر آپ کو آپشن دے گی۔ یہ شاید آپ کو بتائے کہ آج اچھا ہے، آیا آپ کے معمول کے راستے پر کوئی مسئلہ تو نہیں، اور یہ آپ کے لیے ای بائیک یا خودکار ٹیکسی بک کر دے گی۔‘
نیویارک یونیورسٹی میں ریلوے سٹڈیز کے پروفیسر کولین ڈیوال سمجھتے ہیں کہ مسئلے کا یک حل بہتر منصوبہ بندی میں بھی ہے۔
’اصل مشکل یہ ہے کہ ہم خود کو اس طرح سے منظم کریں کہ لوگوں کی نقل و حمل کو کم سے کم بنایا جائے۔‘
’اس کا مطلب ہے کہ شہروں اور قصبوں کی بہتر تشکیل۔ بعض دفعہ آہستہ سفر تیز سفر سے بہتر ہوتا ہے۔‘
امریکہ کی میساچوسٹس انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کے پروفیسر کارلو رٹی کے خیال میں گاڑی کی ملکیت کے حوالے سے رویے بدل رہے ہیں۔
’ہم ایک انقلاب کے دہانے پر کھڑے ہیں۔ مستقبل میں ہم کار اور سواریاں بانٹے کا زیادہ رجحان دیکھیں گے۔ ہمارے پیش گوئی ہے کہ مستقبل میں ہر پانچ میں سے ایک کار سڑک سے غائب ہو جائے گی۔‘
سینسیبل سٹی لیب کے ماہرین کا خیال ہے کہ اگر نیویارک شہر میں اگر زیادہ لوگ ایک ٹیکسی استعمال کرنا شروع کر دیں تو شہر میں موجود 40 فیصد ٹیکسیاں سڑکوں سے ختم ہو جائیں گی اور پھر بھی لوگ وقت پر اپنی منزل پر پہنچ پائیں گے۔

،تصویر کا ذریعہGetty
ایپ پر سروس دینے والے ’اُوبر‘ ٹیکسی سروس پہلے ہی ’اُوبر پول‘ کے نام سے سنہ 2014 میں ایسی شیئر ٹیکسی متعارف کروا چکی ہے۔
ادارہ تسلیم کرتا ہے کہ ٹیکسی بانٹا ’ایک جرات مندانہ سماجی تجربہ ہے‘ کیونکہ یہ سواریوں کی مرضی ہے کہ آپس میں گفتگو کریں یا نہیں۔
کئی گاڑیاں بنانے والی کمپنیاں اس خدشے کے پیشِ نظر کہ گاڑیوں کی ملکیت کا رجحان کم ہو رہا ہے انھوں نے اپنی اپنی کار شیئرنگ سکیمیں شروع کر دی ہیں۔ انھیں اس بات کا احساس ہو گیا ہے کہ مستقبل میں گاڑیاں فروخت کرنے کے بجائے نقل و حمل کی خدمات فراہم کر رہی ہوں گے۔
بنا ڈرائیور کے گاڑیاں:
اس سے بھی بڑی تبدیلی جو شہری سفر میں ہو سکتی ہے وہ بغیر ڈرائیور کے گاڑیوں کا سڑکوں پر آنا ہے۔
پروفیسر رٹی کا کہنا ہے کہ ’ٹیکنالوجی آ چکی ہے۔ اگلے برس خود کار گاڑیاں فروخت ہونا شروع ہو جائیں گی۔‘
ان کے بقول ’خود کار گاڑیوں شہری زندگی پر ڈرامائی اثر ڈالیں گی۔ کیونکہ یہ عوامی اور ذاتی ٹرانسپورٹ کے تاثر کو مدھم کر دیں گی۔‘
’آپ کی گاڑی صبح میں آپ کو کام پر چھوڑے گی اس کے بعد بجائے بے کار چیز کی طرح پارکنگ میں کھڑے ہونے کےے وہ آپ کے خاندان کے کسی دوسرے فرد کو سواری فراہم کرے گی۔ یا اس سے بھی بڑھ کر آپ کے ہمسائے، محلے یا شہر میں کسی کو سہولت فراہم کرے گی۔‘
پر ہجوم پلیٹ فرام پر کھڑے ٹرین کے منسوخی کا اعلان سنتے ہوئے رش سے آزاد جنت کا قیام تو شاید ابھی دُور دکھائی دیتا ہے۔ لیکن سوشل میڈیا اور ماہرین بہتر ٹرانسپورٹ کے انتخاب میں کافی مدد گار ثابت ہو رہے ہیں۔
مثال کے طور پر برازیل میں تجزیے اور مسافروں کے اعداوشمار سے معمول ہوا کے ساؤپاؤلو کا بس کے نظام بہت کمزور ہے۔
مستقبل میں شہری ٹرانسپورٹ کو صاف، ماحول دوست، یکجا اور اچھا بنانے کا وعدہ کیا گیا ہے۔ لیکن دنیا بھر میں لاکھوں بے چین مسافروں کے لیے ایسا مستقبل جلد آنے والا نہیں ہے۔







